Powered by Blogger.

اگر کسی آیت کی تفسیر کتاب وسنت سے نہ ملے تو کیا کیا جائے ؟

شئیر کریں


اگر کسی آیت کی تفسیر کتاب وسنت سے نہ ملے تو کیا کیا جائے ؟

الجواب:


اگر کسی کو کسی آیت یا حدیث کی تفسیر وتشریح آیت یا حدیث سے نہ مل رہی ہو تو اللہ تعالى نے حکم دیا ہے :

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (الأنبیاء : ۷)

اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو ۔

لہذا جسے قرآن یا حدیث کی تشریح وتوضیح قرآن یاحدیث سے نہیں مل رہی وہ ایسے شخص سے پوچھ لے جسے اس آیت یا حدیث کی تشریح وتفسیر قرآن وحدیث سے مل گئی ہے ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کفر دون کفر کی بنیاد بھی قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔

قرآن میں اللہ تعالى نے فرمایا ہے :

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء :93)

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن کا قتل شاید ابدی جہنمی اور کافر ہے ۔

لیکن اللہ تعالى نے فرمایا ہے :

وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا (الحجرات : ۹)

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنوں کے آپس میں قتل وقتال کرنے والے دونوں گروہ مؤمن ہی رہتے ہیں ۔ تو ثابت ہوا کہ کچھ کفر , دون کفر بھی ہے ۔ یعنی کفر اصغر بھی ہے ۔

اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے :

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ (صحیح بخاری : ۴۸)

جس سے مسلمان سے قتل وقتال کرنا کفر معلوم ہوتا ہے ۔

لیکن رسول اللہ کا فرمان :

إِذَا التَقَى المُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالقَاتِلُ وَالمَقْتُولُ فِي النَّارِ (صحیح البخاری : ۳۱)

یہ واضح کرتا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں رہتے مسلمان ہی ہیں۔

تو اس سے بھی ثابت ہوا کہ یہ کام کفر تو ہے لیکن کفر مخرج عن الملہ نہیں بلکہ اس سے بندہ مسلم ہی رہتا ہے , کافر نہیں ہوتا ۔ تو کفر دون کفر ثابت ہوگیا۔

اسی طرح خاوندوں کی نافرمانی سے متعلق رسول اللہ کا فرمان " وتكفرن العشير " بھی کفر دون کفر پر دلالت کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ کفر خاوندوں کا ہے اللہ کا نہیں ۔

یعنی سلف کے ہر صحیح قول پر قرآن وحدیث سے دلیل موجود ہوتی ہے ۔ تو اس میں بھی اصل حجت اور دلیل قرآن وحدیث ہی ہوتا ہے ۔ نہ کہ فہم سلف یا قول سلف !

اور اگر سلف کے کسی قول پر قرآن وحدیث کی دلیل نہ ہو تو وہ صحیح ہی نہیں ہوتا , بلکہ وہ باطل ہوتا ہے !

خوب سمجھ لیں ۔

اور آپ کے علم میں اضافہ کے لیے عرض ہے کہ

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی فہم صحابی کو حجت نہیں جانتے تھے !

اسکے بھی بہت سے دلائل ہیں ۔ مثلا :

ایک مرتبہ ایک شخص ابو موسى اور سلیمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما سے ایک مسئلہ پوچھا تو ان دونوں نے اس مسئلہ کا حل بتایا اور کہا کہ جا کہ ابن مسعود رضی اللہ سے بھی یہ مسئلہ پوچھ لو وہ بھی ہماری موافقت کریں گے ۔ وہ گیا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور ان دونوں کا فتوى بھی سنایا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے :

قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، وَلَكِنِّي أَقْضِي فِيهِمَا كَمَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اگر میں انکی موافقت کروں تو میں گمراہ ہو جاؤں گا , اور ہدایت یافتگان میں سے نہیں رہوں گا ! ۔ میں تو اس بارہ میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ۔

جامع الترمذی : ۲۰۹۳


صرف یہی نہیں اور بھی اسکی بہت سی مثالیں کہ صحابی نے ایک فتوى دیا تو دوسرے صحابی نے اسکی دلیل کی بنیاد پر مخالفت کی ۔ وقت فرصت ان شاء اللہ کبھی ایسے واقعات جمع کر دیں گے ۔
سرنامہ