اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ جماع کے دوران اپنا آلہ تناسل زبردستی اپنی بیوی کے منہ میں دے جب کہ اس کی بیوی اسے منع بھی کرے کہ ایسا کرنا گناہ اور ناجائز ہے. بیوی کے اس سوال پہ شوہر کا یہ کہنا کہ اس سے کوئی گناہ نہیں ہوتا، گناہ صرف بیوی کے ساتھ پاخانے کے راستے سے کرنے سے ہوتا ہے. یہ بات کس حد تک درست ہے کہ منہ میں ایسا کرنے سے گناہ نہیں ہوتا ؟ بار بار ایسا کرنے والے شوہر کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر اسلام اس کو سزا کا حکم دیتا ہے تو سزا کیا ہے؟
اگر کفارہ دینا ہے تو وہ کیا ہے؟ مہربانی فرما کر قرآن و حدیث کے دلائل سے فتوی صادر فرمائیں. جزاک اللہ خیر.
الجواب:
ایسا کرنا شریعت اسلامیہ میں جائز نہیں ہے ! کیونکہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں بیویوں کو مردوں کے لیے کھیتی قرار دیا ہے اور انہیں اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے ۔ کہ وہ بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے علاوہ اپنی شرمگاہ کو کہیں استعمال نہ کریں ۔ اور پھر جماع کرنے کے ہمہ قسم طریقوں کو جائز وروا رکھا بشرطیکہ صرف اور صرف فرج کے راستہ سے جماع کیا جائے ۔ منہ میں جماع کرنا یا دبر میں یا کسی اور راستہ میں جماع کرنے کو ناجائز قرار دیا گیا ہے ۔ اسی بارہ میں سنن ابی داود میں ایک مفصل حدیث بھی موجود ہے :
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّ ابْنَ عُمَرَ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ أَوْهَمَ إِنَّمَا كَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهُمْ أَهْلُ وَثَنٍ مَعَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ يَهُودَ وَهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ وَكَانُوا يَرَوْنَ لَهُمْ فَضْلًا عَلَيْهِمْ فِي الْعِلْمِ فَكَانُوا يَقْتَدُونَ بِكَثِيرٍ مِنْ فِعْلِهِمْ وَكَانَ مِنْ أَمْرِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَنْ لَا يَأْتُوا النِّسَاءَ إِلَّا عَلَى حَرْفٍ وَذَلِكَ أَسْتَرُ مَا تَكُونُ الْمَرْأَةُ فَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ الْأَنْصَارِ قَدْ أَخَذُوا بِذَلِكَ مِنْ فِعْلِهِمْ وَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ يَشْرَحُونَ النِّسَاءَ شَرْحًا مُنْكَرًا وَيَتَلَذَّذُونَ مِنْهُنَّ مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ فَلَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ تَزَوَّجَ رَجُلٌ مِنْهُمْ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ فَذَهَبَ يَصْنَعُ بِهَا ذَلِكَ فَأَنْكَرَتْهُ عَلَيْهِ وَقَالَتْ إِنَّمَا كُنَّا نُؤْتَى عَلَى حَرْفٍ فَاصْنَعْ ذَلِكَ وَإِلَّا فَاجْتَنِبْنِي حَتَّى شَرِيَ أَمْرُهُمَا فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ أَيْ مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ يَعْنِي بِذَلِكَ مَوْضِعَ الْوَلَدِ سنن ابي داود كتاب النكاح باب جامع النكاح (2164)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سمجھی ہے کہ انصاری لوگ بت پرست تھے اور یہودی اہل کتاب تھے اور انصاری لوگ یہودیوں کو علم میں اپنے سے افضل سمجھتے تھے لہذا بہت سے کاموں میں انکی پیروی کرتے تھے ۔ اور اہل کتاب کے ہاں یہ بات رائج تھی کہ وہ عورتوں کے ساتھ صرف ایک ہی طریقہ سے جماع کرتے تھے اور اس سے عورت زیادہ چھپی رہتی تھی ۔ اور انصاریوں نے بھی ان ہی سے یہ بات اخذ کی تھی اور یہ قریشی لوگ عورتوں سے کھل کر جماع کرتے اور آگے سے پیچھے سے اور چت لٹا کر جماع کرتے تو جب مہاجرین مدینہ میں آئے تو ان میں سے ایک آدمی نے انصاری عورت سے شادی کر لی تو وہ اپنے طریقے سے اس کے ساتھ جماع کرنا چاہتا تھا لیکن اسکی بیوی اس بات کا انکار کرتی تھی اور کہتی کہ ہم صرف ایک ہی انداز سے جماع کے قائل ہیں لہذا وہی طریقہ اپناؤ یا مجھ سے دور رہو ۔ حتى کہ انکا معاملہ طول پکڑ گیا اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچا تو اللہ تعالى نے یہ آیت نازل فرمائی
" نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ "
تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں لہذا تم جس طریقے سے چاہو ان سے جماع کرو ۔ یعنی خواہ آگے سے خواہ پیچھے سے خواہ لٹا کر یعنی اولاد والی جگہ سے ۔ اس حدیث میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جماع کرنے کے تمام تر اسلوب جائز و درست ہیں بشرطیکہ جماع وہاں سے کیا جائے جہاں سے اولاد کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔ اور وہ صرف ایک ہی راستہ یعنی فرج کا راستہ ۔ لہذا دیگر تمام تر جماع کے راستے غیر شرعی ہیں ان سے اجتناب کیا جائے ۔ رہا یہ سوال کہ اگر کوئی مرد اپنا ذکر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے تو اس پر کیا حد یا کفارہ ہے تو اس بارہ میں عرض یہ ہے کہ اس چیز کا کفارہ یاحد متعین نہیں ہے ۔ اسے توبہ کروائی جائے اور وہ اس کام سے تائب ہو کر باز آجائے اسکے لیے یہی کافی ہے ۔ ہاں قاضی اس بارہ میں کوئی تعزیری سزا بھی تجویز کر سکتا ہے ۔





