Powered by Blogger.

جی پی فنڈ کےکے بارے میں سوال

شئیر کریں



السلام علیکم :
اک کمپنی اپنے ملازمین کو "سی پی فنڈ" کے نام سے اک سہولت دیتی ہے . جس کی شروط درج ذیل ہیں:

1. یہ سہولت تمام ملازمین کے لئے "آپشنل" ہے . اور اسکا مقصد اپنے ملازمین کو سہولت دینا ہے .

2. جو ملازم بھی چاہے وہ اس سہولت سے استفادہ حاصل کر سکتا ہے اور وہ اپنی تنخواہ میں سے کچھ مخصوص حصہ جو کے زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار ہے ، کٹوا سکتا ہے

3. جتنی رقم ملازم نے کٹوائی ہوتی ہے ، اتنی ہی رقم کمپنی اپنی طرف سے ڈال کر بینک کے کسی کاروباری کام میں خرچ کرتی ہے . اب ملازم کو جب یہ رقم واپس دی جاۓ گی تو اس میں ایک تو وہ رقم تھی جو ملازم نے کٹوائی اور جو اتنی ہی رقم کمپنی نے اپنی طرف سےڈالی وہ بھی ملازم ہی کو ملے گی. اور ملازم اگر چاہے تو جو بینک کے کاروبار سے منافع ہوا ہے اس میں سے بھی اپنا حصہ لے سکتا ہے اور اس کے اوپر سود بھی ..!!! لیکن یہ منافع اور سود اسکی مرضی پر ہے کہ وہ معاہدے سے نکلوا بھی سکتا ہے، معاہدے کے اندر اسکو نکالنے کی سہولت موجود ہے. 

4. کمپنی اس فنڈ کی سہولت سے فائدہ اٹھانے والے ملازمین سے یہ معاہدہ لکھواتی ہے کہ سروس کے دوران سی پی فنڈ کے لئے کٹوائی گئی رقم ملازمت پوری ہونے پر پوری نکلوا سکتا ہے . اوراگر ملازمت کے دورانجمع شدہ رقم سے استفادہ حاصل کرنا چاہے تو اس معاہدے کے تین سال بعد ٹوٹل رقم جو شق #3 کے تحت بنے گی اسکا 80 %بطور قرض نکلوا سکتا ہے جو کے بعد میں طے شدہ اوسط کے ساتھ ہر ماہ واپس لیے جاتے ہیں . 

سوال یہ ہے کہ اس شرط کے ساتھ کہ بینک کے کاروبار سے کمایا گیا منافع اور سود نہ لیا جاۓ ،اور صرف ملازم کی اپنی اصل رقم اور اس کے ساتھ اتنی ہی کمپنی کی طرف سے دی گی رقم لینا جائز ہے ؟؟؟ قرآن و حدیث کے دلائل کے ساتھ تفصیلی فتویٰ دیں .اور حلال و حرام کی تمام صورتیں بھی بیان کر دیں ..انشا الله کمپنی کے تمام ملازمین تک یہ فتویٰ پہنچایا جاۓ گا..!!!
جزاک الله


الجواب:

جی پی فنڈ میں جتنی رقم کی کٹوتی کی گئی ہے اتنی ہی رقم وصول کی جاسکتی ہے ۔ اس پر سود وصول کرنا حرام ہے ۔
کمپنی کی طرف سے دی گئی اضافی رقم کو بونس کا نام دیا جاتا ہے ۔ عام طور پر حکومتی اداروں میں کٹوتی پر تیس فیصد بونس دیا جاتا ہے اور پندرہ سے بیس فیصد تک اس پر سود لگتا ہے ۔ اور پھر آئند ہ سال کٹوتی + سود+ بونس پر پھر سود لگتا ہے اور اسی کے تیس فیصد پر بونس دیا جاتا ہے ۔ یعنی یہ بونس بھی سودِمرکب ہی بن جاتا ہے ۔ اگر تو ایسی ہی صورت ہے تو ایسا بونس لینا بھی درست نہیں ۔ اور اگر ملازم کے تنخواہ سے جتنی رقم کاٹی گئی اتنا ہی بونس ہو یعنی اس میں سود شامل نہ ہو تو اس میں حرج نہیں ۔
سود کی حرمت کے تمام تر دلائل اس سودِمرکب کے حرام ہونے پر بھی دلالت کرتے ہیں ۔ 
ہاں 
جب اسے سود سے بچا لیا جائے اور جتنی رقم کی کٹوتی کی گئی ہے اتنی ہی وصول کی جائے تو اسکے مباح اور حلال ہونے میں کوئی شک نہیں ۔
سرنامہ