السلام علیکم ورحمۃ اللہ، ان سؤالات کے جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمادیں۔
۱۔عورتوں کا مرد استادوں سے پڑھنا جیسا کہ آج کل رواج ہے چاہے کسی مدرسہ،جامعہ ہو یا یونیورسٹی اور مرد بھی عورت استانیوں سے پڑھتے ہیں ایسا جائز ہے یا حرام ہے؟ اگر یہ عذر ہو کہ کوئی ایسی جگہ میسر نہیں جہاں مخلوط تعلیم نہ ہو تو کیا پھر مخلوط تعلم حاصل کرنا جائز ہے؟ اگر یہ کہا جائے اگر فتنہ کا ڈر نہ ہو تو باپردہ مخلوط تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے تو کوئی بھی مخلوط تعلم ایسی نہیں ہوتی جہاں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور عام تور پر ان درس گاہوں میں استاد و شاگرد فری ہی ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے جہاں صرف مخلوط تعلیم میسر ہوتی ہے جیسے یونیوسٹیز میں مستعمل تعلیمی نظام وغیرہ اس میں پڑھنے جانا یا بہن ، بیٹیوں کو بھیجنا اور لڑکوں کا لڑکیوں (جن میں باپردہ اور بے پردہ دونوں ہوتی ہیں) کے ساتھ پڑھنا اور مرد کا عورت سے پڑھنا، عورت کا مرد سے پڑھنا کیسا ہے تفصیلی وضاحت فرما دیں۔
۲۔بیشتر نقاب کرنے والی خواتین (نقاب میں چونکہ آنکھیں کُھلی ہوتی ہیں اس لیے ) آنکھوں پر مسکارا لگاتیں ہیں، یہ جائز ہے یا زینت ظاہر کرنے میں آئے گا؟
۳۔الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بیوٹی پارلر کا کام حرام ہے اس لیے بیوٹی پارلر جانا بھی جائز نہیں میں نے یہاں سؤال کیا تھا آپ نے فرمایا تھا عورت شادی وغیرہ کے لیے تیار ہونے جاسکتی ہے براہِ مہربانی اس کی وضاحت فرما دیں اگر بیوٹی پارلر کا کام حرام ہے تو جانا جائز ہے؟ اس کے علاوہ کچھ علماء فرماتےہیں جس بیوٹی پارلر میں حرام کام نہیں ہوتا جیسے بھنویں بنانا ، جسم کے اعضاء کی ویکس کے لئے ستر کھولنا وغیرہ ، تو جائز ہے پر ایسا کون سا بیوٹی پارلر ہے جہاں یہ کام نہیں ہوتے؟ اس سلسلئہ میں صحیح موقف کیا ہے اس کی رہنمائی فرمادیں۔
۴۔ ناخن بڑے کرنا اور اس پر نیل پالش لگانا کا کیا حکم ہے؟
۵۔مردوں کا کان چھدوانا چاہے ایک ہو یا دونوں اور اس میں ٹاپس وغیرہ پہنا جائز ہے یا حرام کام ہے؟
۶۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں "كُلُّ شَيْءٍ لَيْسَ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ ، فَهُوَ لَهْوٌ أَوْ سَهْوٌ غَيْرَ أَرْبَعِ خِصَالٍ : تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ ، وَمُلاعَبَتُهُ أَهْلَهُ ، وَرَمْيٌ بَيْنَ الْغَرَضَيْنِ ، وَتَعْلِيمُ السِّبَاحَةِ" ۔ (صحیح) کیا اس حدیث کی رو سے کرکٹ، فٹبال، ٹینس اور دوسرے کھیل کھیلنا ، ان کو دیکھنا وغیرہ حرام ہیں یا جائز امور میں سے ہے؟ اور ان کھیلوں میں مشغول رہنے واے یا دیکھنے میں وقت صرف کرنے والے کو گناہ ہوگا؟
۷۔ ایک شخص بدعتی رسومات اہتمام سے کرتا ہے پر اس کو دین کی خدمت سمجھتا ہے اور اس کا رد کرنے والوں کو غلط جانتا ہے کہ وہ غلط موقف پر ہیں پر اس کی نیت ان کاموں میں نیک ہے کیا ایسے شخص کو اس کی نیت کی بنا پر اجر لے گا؟ اور بدعتی کاموں کی وجہ سے اس پر پکڑ نہیں ہوگی؟
۸۔میلاد، گیارویں، اور ایسے موقوں پر جو کھانے تیار کرکے لوگوں کے گھروں میں بھیجے جاتے ہیں ایسے کھانے آنے پر اس کو آگے کسی اور کو بھیج دینا چاہے یا تلف کر دینا چاہے؟
۹۔ ایک شخص کبھی ایک نماز پڑھتا ہے کبھی دو ، کبھی کوئی بھی نہیں اب اس شخص کو یاد نہیں کتنی نمازیں پڑھی تھیں کتنی چھوڑ دی تھی ۔ اس کی قضا کیسے اداجائے گی؟
۱۰۔ایک دیوبندی سے میں نے سُنا ہے کہ اسلحہ رکھنا سنتِ رسول ﷺ ہے اس لیے جیسا کہ پاکستانی قانون میں اسلحہ کا لائسنس حاصل کرنا ضرووری ہے ورنہ اسلحہ غیر قانونی تصور ہوگا ۔ اِس قانون پر عمل کرنا ضروری نہیں کیونکہ اسلام میں اسلحہ رکھنے کی کوئی شرط نہیں نہ سنتِ رسول ﷺ پر عمل کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت ہے۔ براہِ مہربانی اس پر روشنی ڈالیں یہ موقف کس حد تک درست ہے۔
الجواب:
۱۔عورتوں کا مرد استادوں سے پڑھنا جیسا کہ آج کل رواج ہے چاہے کسی مدرسہ،جامعہ ہو یا یونیورسٹی اور مرد بھی عورت استانیوں سے پڑھتے ہیں ایسا جائز ہے یا حرام ہے؟ اگر یہ عذر ہو کہ کوئی ایسی جگہ میسر نہیں جہاں مخلوط تعلیم نہ ہو تو کیا پھر مخلوط تعلم حاصل کرنا جائز ہے؟ اگر یہ کہا جائے اگر فتنہ کا ڈر نہ ہو تو باپردہ مخلوط تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے تو کوئی بھی مخلوط تعلم ایسی نہیں ہوتی جہاں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور عام تور پر ان درس گاہوں میں استاد و شاگرد فری ہی ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے جہاں صرف مخلوط تعلیم میسر ہوتی ہے جیسے یونیوسٹیز میں مستعمل تعلیمی نظام وغیرہ اس میں پڑھنے جانا یا بہن ، بیٹیوں کو بھیجنا اور لڑکوں کا لڑکیوں (جن میں باپردہ اور بے پردہ دونوں ہوتی ہیں) کے ساتھ پڑھنا اور مرد کا عورت سے پڑھنا، عورت کا مرد سے پڑھنا کیسا ہے تفصیلی وضاحت فرما دیں۔
مخلوط نظام تعلیم کے بارہ میں جو آج کل ہمارے ہاں رائج ہے اہل علم بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور تفصیلا لکھ چکے ہیں ۔ جسکا خلاصہ یہ ہے کہ یہ نظام تعلیم بالکل غلط اور غیر شرعی ہے ۔ لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے ۔ اگر کوئی ایسی جگہ میسر نہ ہو جہاں مخلوط نظام تعلیم نہیں ‘ تو اتنے ہی علم پر اکتفاء کر لیا جائے جتنا اس فتنہ میں مبتلا ہوئے بغیر حاصل ہو گیا ہے ۔
۲۔بیشتر نقاب کرنے والی خواتین (نقاب میں چونکہ آنکھیں کُھلی ہوتی ہیں اس لیے ) آنکھوں پر مسکارا لگاتیں ہیں، یہ جائز ہے یا زینت ظاہر کرنے میں آئے گا؟
یہ بھی اظہار زینت میں شامل ہے‘ پردہ اس طرح سے کیا جائے کہ آنکھیں بھی کسی کو نظر نہ آئیں ۔
۳۔الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بیوٹی پارلر کا کام حرام ہے اس لیے بیوٹی پارلر جانا بھی جائز نہیں میں نے یہاں سؤال کیا تھا آپ نے فرمایا تھا عورت شادی وغیرہ کے لیے تیار ہونے جاسکتی ہے براہِ مہربانی اس کی وضاحت فرما دیں اگر بیوٹی پارلر کا کام حرام ہے تو جانا جائز ہے؟ اس کے علاوہ کچھ علماء فرماتےہیں جس بیوٹی پارلر میں حرام کام نہیں ہوتا جیسے بھنویں بنانا ، جسم کے اعضاء کی ویکس کے لئے ستر کھولنا وغیرہ ، تو جائز ہے پر ایسا کون سا بیوٹی پارلر ہے جہاں یہ کام نہیں ہوتے؟ اس سلسلئہ میں صحیح موقف کیا ہے اس کی رہنمائی فرمادیں۔
شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا فتوى درست ہے ۔ کیونکہ مروجہ بیوٹی پارلرز میں اللہ کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کی جاتی ہے ۔ اور خلاف شرع کام ہوتے ہیں ۔ رہا صرف جائز طریقہ سے خوبصورتی کے حصول کی خاطر بیوٹی پارلر جانا ‘ یا بیوٹی پارلر میں شرعی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیوٹیشنز کا کاروبار کرنا تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ اور اس طریقہ کار سے شادی کے لیے تیار ہونا ہو یا اسکے علاوہ کسی اور جائز مقصد کے لیے ‘ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ایسے بہت سے بیوٹی پارلرز آج بھی پائے جاتے ہیں جہاں شرعی تقاضوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان میں سے اکثر پر "بیوٹی پارلر" کا بورڈنہیں لگا ہوتا۔ بے حیائی پھیلنے سے قبل کے ادوار میں نائن یہی کام کیا کرتی تھی , وہ لڑکی کو خاوند کے لیے تیار کیا کرتی تھی ۔ یا پھر لڑکی کی رشتہ دار خواتین ہی اسے بہتر طور پر تیار کر کے خاوند کے پاس بھیجتی تھیں ۔
۴۔ ناخن بڑے کرنا اور اس پر نیل پالش لگانا کا کیا حکم ہے؟
دونوں کام ناجائز ہیں ۔
۵۔مردوں کا کان چھدوانا چاہے ایک ہو یا دونوں اور اس میں ٹاپس وغیرہ پہنا جائز ہے یا حرام کام ہے؟
عورتوں سے مشابہت ہونے کی بناء پر ملعون کام ہیں ۔
۶۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں "كُلُّ شَيْءٍ لَيْسَ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ ، فَهُوَ لَهْوٌ أَوْ سَهْوٌ غَيْرَ أَرْبَعِ خِصَالٍ : تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ ، وَمُلاعَبَتُهُ أَهْلَهُ ، وَرَمْيٌ بَيْنَ الْغَرَضَيْنِ ، وَتَعْلِيمُ السِّبَاحَةِ" ۔ (صحیح) کیا اس حدیث کی رو سے کرکٹ، فٹبال، ٹینس اور دوسرے کھیل کھیلنا ، ان کو دیکھنا وغیرہ حرام ہیں یا جائز امور میں سے ہے؟ اور ان کھیلوں میں مشغول رہنے واے یا دیکھنے میں وقت صرف کرنے والے کو گناہ ہوگا؟
مذکورہ بالا تین کاموں کے سوا وہ تمام کام جنکا تعلق لہو سے ہے باطل ہیں۔ البتہ ایسا کھیل جس سے قوت حاصل ہو اور جسم مضبوط ہو ‘ درست ہے ۔کیونکہ وہ لہو نہیں ۔
۷۔ ایک شخص بدعتی رسومات اہتمام سے کرتا ہے پر اس کو دین کی خدمت سمجھتا ہے اور اس کا رد کرنے والوں کو غلط جانتا ہے کہ وہ غلط موقف پر ہیں پر اس کی نیت ان کاموں میں نیک ہے کیا ایسے شخص کو اس کی نیت کی بنا پر اجر لے گا؟ اور بدعتی کاموں کی وجہ سے اس پر پکڑ نہیں ہوگی؟
نیک نیت کی وجہ سے کوئی اجر نہیں ملے گا ‘ بلکہ بدعت کی وجہ سے گرفت ہوگی ۔ یاد رہے کہ بدعت کی ہی نیک نیتی سے جاتی ہے ۔
۸۔میلاد، گیارویں، اور ایسے موقوں پر جو کھانے تیار کرکے لوگوں کے گھروں میں بھیجے جاتے ہیں ایسے کھانے آنے پر اس کو آگے کسی اور کو بھیج دینا چاہے یا تلف کر دینا چاہے؟
ایسے کھانے وصول ہی نہ کریں ۔
۹۔ ایک شخص کبھی ایک نماز پڑھتا ہے کبھی دو ، کبھی کوئی بھی نہیں اب اس شخص کو یاد نہیں کتنی نمازیں پڑھی تھیں کتنی چھوڑ دی تھی ۔ اس کی قضا کیسے اداجائے گی؟
توبہ کرکے پکا نمازی بن جائے ‘ کسی قضاء کی ضرورت نہیں ۔
۱۰۔ایک دیوبندی سے میں نے سُنا ہے کہ اسلحہ رکھنا سنتِ رسول ﷺ ہے اس لیے جیسا کہ پاکستانی قانون میں اسلحہ کا لائسنس حاصل کرنا ضرووری ہے ورنہ اسلحہ غیر قانونی تصور ہوگا ۔ اِس قانون پر عمل کرنا ضروری نہیں کیونکہ اسلام میں اسلحہ رکھنے کی کوئی شرط نہیں نہ سنتِ رسول ﷺ پر عمل کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت ہے۔ براہِ مہربانی اس پر روشنی ڈالیں یہ موقف کس حد تک درست ہے۔
یہ موقف سراسر غلط ہے ۔ کیونکہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے
 "الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا " 
مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں ‘ ہاں البتہ کوئی ایسی شرط جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر دے (تووہ ناجائز ہے ‘ اسے پورا نہ کیا جائے) جامع الترمذی :1352
 






