ماہ شعبان شروع ہوتے ہی نوجوان آتش بازی اور شرلی پٹاخے داغنے کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں اور پھر جب پندرھویں رات آتی ہے تو یہ کام عروج پر ہوتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ چراغاں بھی کیا جاتا ہے شریعت اسلامیہ میں اسکا کیا حکم ہے ؟
الجواب:
یہ تمام تر کام تبذیر کے زمرہ میں آتے ہیں ۔ اور تبذیر فضول خرچی کی قبیح ترین قسم ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا ہے :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [الإسراء : 27]
تبذیر کرنے والے یقینا ہمیشہ سے ہی شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان ہمیشہ سے ہی اپنے رب کا ناشکرا ہے ۔
فضول خرچی کے لیے اللہ تعالى نے قرآن مجید میں دو الفاظ استعمال کیے ہیں
۱۔ اسراف
۲۔ تبذیر
اسی طرح اہل اسلام ان اچانک بجنے والے پٹاخوں سے گھبرا جاتے ہیں ۔ جبکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی مسلمان کو ڈرانا حرام قرار دیا ہے :
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسِيرُونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَانْطَلَقَ بَعْضُهُمْ إِلَى حَبْلٍ مَعَهُ فَأَخَذَهُ فَفَزِعَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا (سنن ابی داود : 5004)
عبدالرحمن بن ابی لیلى رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بتایا کہ وہ نبی مکرم ﷺ کے ساتھ سفر پر تھے کہ ان میں سے ایک آدمی سوگیا اور ایک دوسرا شخص اسکے پاس گیا اور اسکی رسی کو اِس نے پکڑ کر اس (سوئے ہوئے) کو ڈرا دیا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی بھی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے مسلمان کو ڈرائے ۔
پھر راتوں کو ان شرلیوں اور پٹاخوں کے شور کی وجہ سے اہل ایمان چین کی نیند نہیں سو سکتے ۔ جبکہ شریعت اسلامیہ نے کسی بھی مسلمان کو تکلیف پہنچانا حرام قرار دیا ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ (صحیح البخاری : ۱۰)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے , وہ نبی مکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔
اسی طرح یہ آتش بازی اور چراغاں مجوسیوں کی مشابہت بھی ہے ۔ جبکہ دین اسلام نے کافروں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے :
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (سنن ابي داود : 4031)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہوگا ۔
مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سوال میں مذکور کام کرنے کی شریعت میں قطعا اجازت نہیں ۔
هذا , والله تعالى أعلم وعلمه أكمل وأتم , ورد العلم إليه أسلم , والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم
وصلى الله على نبينا محمد وآله وسلم





