اللہ رب العالمین کا فرمان ذی شان ہے :
‹اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ› [الأعراف: 55]
اپنے رب کو تضرع کے ساتھ چپکے چپکے پکارو ۔ یقینا وہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے دعاء مانگنے کا ایک عمومی قاعدہ ذکر فرمایا ہے کہ دعاء:
١۔ تضرع یعنی گڑگڑا کر ،
٢۔ اور خفیہ طور پر ، چپکے چپکے کی جائے ۔
اور ساتھ ہی رب العزت نے اس قاعدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو معتدین یعنی زیادتی کرنے والے قرار دیتے ہوئے ان سے عدم محبت کا اعلان فرمایا ہے ۔
یعنی دعاء کرنے کا عمومی قانون یہی ہے کہ اللہ تعالی سے اس انداز میں دعاء کی جائے کہ کسی کو دعاء کرنے والے کا علم نہ ہو ، دعاء کرنے والا خفیہ طور پر چپکے چپکے دعاء کرے ۔ تو اس قانون کی رو سے دعاء کے لیے ہاتھ اٹھانا بھی ممنوع قرار پاتا ہے اور بآواز بلند دعاء کرنا بھی ناجائز ٹھہرتا ہے ۔
لیکن بسا اوقات کچھ چیزیں عمومی قانون اور قاعدہ کلیہ سے مستثنی بھی ہوتی ہیں ۔ بالکل اسی طرح خفیہ طور پر دعاء کرنے کے اس اصول سے کچھ دعائیں مستثنی ہیں ۔ اور جسے بھی عمومی اصول یا کلی قاعدہ سے استثناء حاصل ہو، اسکے لیے دلیل درکار ہوتی ہے ۔ بغیر دلیل کے کسی چیز کو عمومی اصول سے مستثنی نہیں کیا جا سکتا ۔
لہذا وہ تمام تر ادعیہ جن کے لیے ہاتھ اٹھانا نبی مکرمﷺ سے ثابت ہے ، یا جو دعائیں بآواز بلند کرنا آپﷺ سے منقول ہے وہ اس عمومی اصول سے مستثنی ہو جانے کی بناء پر ہاتھ اٹھا کر یا جہراً کی جائیں گی ۔ ان کے علاوہ باقی تمام تر دعائیں ہاتھ اٹھائے بغیر، اونچی آواز نکالے بغیر، دل ہی دل میں کی جائیں گی ۔
اس آیت سے مندر جہ ذیل مسائل ثابت ہوتے ہیں:
١۔ نماز میں پڑھی جانے والی تمام تر دعائیں، خواہ ثناء و دعائے استفتاح ہو یا رکوع وسجدہ اور تشہد کی دعائیں سب سراً یعنی آواز نکالے بغیر، خفیہ طور پر پڑھی جائیں ۔ کیونکہ دعاء میں اصل اخفاء ہے ، اور انکے جہر کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔
٢۔ نماز کے بعد دعاء مانگتے ہوئے ہاتھ نہ اٹھائے جائیں ۔ کیونکہ اس موقع پر ہاتھ اٹھانا شرعی دلیل سے ثابت نہیں ، اور ہاتھ اٹھانے والا ''خفیہ'' نہیں رہتا ۔ استثنىٰ کی دلیل نہ ہونے کی بناء پر وہ حکم شرعی ‹اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً› پر ہی عمل کرے۔
٣۔ جن دعاؤں کو اونچی آواز سے پڑھنا ثابت ہے ان کے علاوہ نماز کے بعد کی جانے والی باقی دعائیں بغیر آواز مانگی جائیں۔
٤۔ مختلف مواقع پر کی جانے والی ادعیہ ، مثلاً: مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت، کھانے سے پہلے اور بعد، بیت الخلاء میں داخل اور خارج ہوتے وقت ،سواری پر سوار ہوتے وقت وغیرہ کی دعائیں بھی ہاتھ اٹھائے بغیر اور آواز نکالے بغیر کی جائیں ۔
سراً یعنی اونچی آواز نکالے بغیر دعاء کرنے کے بہت سے فوائد اور فضیلتیں ہیں مثلا :
١۔سراً دعاء کرنا ایمان کی مضبوطی کی دلیل ہے ۔ کیونکہ اس وقت دعاء کرنے والے کا عقیدہ ہوتا ہے کہ اللہ خفیہ بات کو بھی سنتا ہے ۔
٢۔ آہستہ آواز میں دعاء کرنا اللہ کی تعظیم ہے ، کیونکہ جب اللہ سراً کی جانے والی دعاء کو بھی سنتا ہے تو پھر شور کس لیے ؟
٣۔سراً دعاء کرنے میں تضرع اور خشوع زیادہ ہوتا ہے ۔گویا اللہ کے سامنے اس کی آواز گُنگ ہو چکی ہے ۔
٤۔ اس طرح دعاء کرنے میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے ، کیونکہ اس میں ریاء کی گنجائش نہیں رہتی ۔
٥۔ آہستہ دعاء کرنے والا اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا ، جبکہ جہراً دعاء کرنے میں اس کا خدشہ لگا رہتا ہے ۔
جن مواقع پر دعاء کے لیے ہاتھ اٹھانا یا جہراً دعاء کرناثابت ہے ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
١۔ کسی کے مطالبہ پر ہاتھ اٹھا کر جہراً دعاء کرنا:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں قحط پڑ گیا ۔ اس دوران کہ نبیﷺ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے ایک دیہاتی کھڑا ہوا، اس نے کہا : اے اللہ کے رسولﷺ مال ہلاک ہوگیا، اہل وعیال بھوکے ہوگئے، آپ اللہ سے ہمارے لیے دعاء فرما دیں ۔ تو آپﷺ نے دعاء کے لیے اپنے ہاتھ اٹھا دیے اور اس وقت آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا بھی نہ تھا ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!
 آپﷺ کے ہاتھ نیچے کرنے سے پہلے ہی پہاڑوں جیسے بادل نمودار ہوگئے ، اور ابھی آپﷺ منبر سے اترے نہ تھے کہ میں نے آپﷺ کی داڑھی مبارک پر بارش ٹپکتی دیکھی ۔ پھر سارا دن بارش ہوتی رہی، اس سے اگلے دن بھی اور اس کے بعد بھی حتی کہ دوسرا جمعہ آگیا ۔ اور وہی دیہاتی یا کوئی اور اٹھا تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! عمارتیں گر گئیں ، مال غرق ہوگیا ، آپ ہمارے لیے اللہ سے دعاء کریں ۔ تو نبیﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: اے اللہ! ہمارے ارد گرد (بارش برسا ) اور ہم پر نہ (برسا۔) اور آپﷺ اپنے ہاتھ کے ساتھ جس طرف بھی اشارہ فرماتے تھے، بادل وہاں سے ہٹ جاتا تھا حتی کہ مدینہ کے گرد بادلوں کا دائرہ بن گیا ۔ 
(صحیح البخاري: 933)
ابو عامر رضی اللہ عنہ غزوہ اوطاس کے امیر تھے ،انہیں تیر لگا جس سے وہ نڈھال ہوگئے تو انہوں نے ابو موسی رضی اللہ عنہ کو کہا کہ نبیﷺ کو میرا سلام کہنا اور میرے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا ، اس کے کچھ ہی بعد وہ خالق حقیقی سے جاملے ۔ ابو موسی عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ جب واپس آئے تووہ نبیﷺ کے پاس گئے۔ آپﷺ ایک گھر میں کھجور سے بُنی چارپائی پرتشریف فرما تھے ۔ چارپائی پر بستر بچھا ہوا تھا اور آپﷺ کی کمر اور پہلوؤں پر کھجور کی رسیوں کے نشانات تھے۔ انہوں نے آپﷺ کو ابو عامر کی خبر دی اور ان کی دعائے مغفرت کی درخواست بھی پیش فرمائی تو نبی کریمﷺ نے پانی منگوایا اور اس سے وضوء فرمایا۔ پھر کچھ دیر بعد آپﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور کہا: اے اللہ! ابو عامر عبید کو معاف فرما دے ۔ ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر کچھ دیر بعد آپﷺ نے فرمایا: اللہ! قیامت کے دن اسے اپنی مخلوق میں سے بہت سے لوگوں پر فوقیت عطاء فرما ۔ تو میں نے عرض کیا اور میرے لیے بھی استغفار فرما دیں تو آپﷺ نے فرمایا : اے اللہ! عبد اللہ بن قیس کے گناہ معاف فرما اور اسے روز قیامت عزت والی جگہ میں داخل فرما۔
(صحیح البخاري:4323، وصحیح مسلم : 2498)
٢۔ قنوت نازلہ کے لیے ہاتھ اٹھانااور بآواز بلند دعاء کرنا:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مشرکین نے ستر قراء صحابہ کو شہید کر دیا تو میں نے رسول اللہﷺ کو کسی چیز پر اتنا غمزدہ نہیں دیکھا جتنا غم آپﷺ نے انکی شہادت پر کیا ۔ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ جب بھی فجر کی نماز پڑھاتے تو ہاتھ اٹھا کر ان صحابہ کے قاتلین کے خلاف بد دعاء فرماتے ۔
 (مسند أحمد : 12402)
٣۔ قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا
عبد اللہ بن کثیر بن المطلب کہتے ہیں کہ انہوں نے محمد بن قیس کو یہ کہتے سنا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرما رہی تھیں: کیا میں تمہیں اپنے اور نبیﷺ کے متعلق ایک واقعہ نہ سناؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ فرماتی ہیں: جب میری رات تھی جس میں نبیﷺ کی باری میرے ہاں تھی تو آپﷺ گھر لوٹے اور اپنی چادر مبارک رکھی اور اپنے جوتے اتار کر پاؤں کے پاس ہی رکھ لیے اور اپنے ازار کا ایک حصہ بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے ۔ ابھی اتنی دیر ہی گزری تھی کہ آپﷺ نے یہ گمان کیا کہ میں سو گئی ہوں تو آپﷺ نے اپنی چادر آہستہ سے اٹھائی، آہستہ سے جوتا پہنا، آہستہ سے دروازہ کھولا اور اسے آہستہ سے بند کر دیا۔ تو میں نے سر پر چادر لی ، دوپٹہ اوڑھا ، ازار سنبھالا اور آپ ﷺ کے پیچھے چل دی ۔ حتی کہ آپﷺ بقیع (قبرستان) پہنچے۔ وہاں کافی دیر تک کھڑے رہے۔ پھر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار اٹھایا، پھر واپس پلٹے تو میں بھی پلٹی۔ وہ جلدی چلنے لگے تو میں نے بھی تیز قدم اٹھانا شروع کر دیے۔ وہ دوڑے تو میں بھی دوڑی۔ وہ گھر پہنچے تو میں ان سے پہلے ہی گھر پہنچ گئی ۔میں ابھی گھر میں داخل ہو کر لیٹی ہی تھی کہ آپﷺ بھی داخل ہوگئے ۔ آپﷺ نے فرمایا: اے عائش ! تو کیوں گھبرا ئی ہوئی ہے اور سانس پھولا ہوا ہے؟ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: کچھ بھی نہیں ۔ تو آپﷺ نے فرمایا: تو مجھے بتائے گی یا خوب باریک بین اور خوب خبر رکھنے والا (اللہ ) مجھے بتائے؟!۔
 میں نے کہا :
 اے اللہ کے رسولﷺ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اور میں نے ساری بات کہہ سنائی۔ تو آپﷺ نے فرمایا: تو ہی وہ سایہ تھی جو میں نے اپنے آگے دیکھا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! تو آپﷺ نے میرے سینے میں گھونسا مارا جس سے مجھے کچھ تکلیف ہوئی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: کیا تو نے یہ سمجھا تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟ فرماتی ہیں کہ لوگ جتنا بھی چھپا لیں، اللہ تو جانتا ہی ہے، ہاں !۔ تو آپﷺ نے فرمایا :جب تو نے دیکھا تو اس وقت میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے ۔ انہوں نے تجھ سے چھپا کر مجھے آواز دی، تو میں نے بھی تجھ سے چھپا کر اسے جواب دیا ۔ اور وہ تیرے پاس آنے والے نہ تھے کیونکہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی، اور میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے تو میں نے تجھے جگانا پسند نہیں کیا، اور مجھے خدشہ ہوا کہ تو ڈر جائے گی ۔ جبریل نے مجھے کہا: آپ کا رب آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اہل بقیع کے پاس جائیں اور ان کے لیے استغفار کریں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ!
 میں کیسے دعاء کیا کروں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا تو کہہ :
 السَّلَامُ عَلَی أَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ وَیَرْحَمُ اللہُ الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِینَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللہُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ۔
 (صحیح مسلم: 974)
٤۔ نماز استسقاء میں دعاء کے لیے ہاتھ اٹھانا:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اللہﷺ کسی بھی دعاء میں (اس قدر) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے مگر بارش طلب کرنے میں اتنے ہاتھ اٹھاتے کہ آپﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی جاتی تھی ۔ 
(صحیح مسلم: 895)
٥۔ تعزیت کے دوران میت اور اہل میت کے لیے جہراً دعاء کرنا:
جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے۔ آپﷺ نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بند فرمائیں اور فرمایا کہ جب روح قبض ہوتی ہے تو آنکھیں اس کا پیچھا کرتی ہیں ۔ یہ بات سن کران کے گھر والے چیخنے لگے تو نبیﷺ نے فرمایا: اپنے لیے بھلائی ہی مانگو، کیونکہ جوکچھ بھی تم کہتے ہو ، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: اے اللہ! ابو سلمہ کو معاف فرما دے ، اور ہدایت یافتہ لوگوں میں اسے بلند مقام عطا فرما، اور اس کے بعد اس کے اہل وعیال میں اس کا خلیفہ بن جا، اوراے رب العالمین! اسے اور ہمیں معاف فرما دے ، اے اللہ اس کی قبر کو کشادہ فرما اور اس کے لیے اس میں روشنی کر دے ۔
 (صحیح مسلم :920)
ان مواقع کے علاوہ اور بھی کچھ مواقع ایسے ہیں جن میں ہاتھ اٹھا کر یا بآواز بلند دعاء کرنا ثابت ہے ۔ ہم بغرض اختصار انہی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وسلم
 






