السلام وعلیکم شیخ محترم 
منکر حدیث کی طرف سے ایک سوال اٹھایا گیا ہے کے قرآن کی اس آیت کی رو سے 
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ الله کے رسول اور سب نبیوں کے خاتمے پر ہیں اور الله ہر بات جانتا ہے
سورة الأحزاب 40
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد ۔ قاسم ، طیب اور طاہر تین بچے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بطن سے، حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے ایک بچہ ہوا جس کا نام حضرت ابراہیم تھا - 
وہ کہتے ھیں کے قرآن کی یہ آیت کہتی ھے کےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مرد کے باپ نھی تو پھر یہ نرینہ بچوں والی 
روایت صیح نھی ثابت ہوتی اس کے متعلق آپ وضاحت فرما دیں -
الجواب:
آیت اور احادیث میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ 
آیت میں یہ کہا جا رہا ہے کہ محمد صلى اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں ۔
اور احادیث بھی یہی کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی اولاد نرینہ میں سے کوئی بھی زندہ باقی نہیں رہا ۔
آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد پیدا ہی نہیں ہوئی ۔ صرف اتنا ہے کہ وہ کسی مرد کے باپ نہیں ۔ اور جسکی اولاد نرینہ پیدا ہوکر فوت ہو جائے اسکے لیے بھی یہ جملہ بولا جاتا ہے کہ وہ کسی مرد کا باپ نہیں ہے ۔ 
اور یہ آیت جب نازل ہوئی اس وقت نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی بیٹا زندہ نہ تھا ۔
اور پھر
آیت میں جن لوگوں کو مخاطب کیا جارہا ہے ان میں سے کسی مرد کے باپ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نہیں تھے ۔ کیونکہ یہ کہا جارہا ہے کہ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ۔ یہ نہیں کہا گیا کہ کسی بھی مرد کے باپ نہیں ۔ اور ان دونوں باتوں میں فرق نہایت واضح ہے ۔ 
ایک مثال سے اس فرق کو سمجھیے :
عبد الرحمن اپنے بھائی عبد اللہ کی اولاد کے مابین بیٹھا ہو اور عبد اللہ اپنے بچوں کو یہ کہہ کر مخاطب کرے کہ عبد الرحمن تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ہے ۔ تو اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ عبد الرحمن کسی بھی مرد کا باپ نہیں ہے ‘ ہوسکتا ہے کہ عبد الرحمن کی مرد اولاد ہو لیکن جنہیں خطاب کیا جارہا ہے ان میں سے کوئی بھی مرد عبد الرحمن کی اولاد نہیں ہے ۔
خوب سمجھ لیں ۔
 






