السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1-یہ بات تو معلوم ہے کہ شادی کے موقع پر بیٹی کو جہیز دینا جائز نہیں لیکن اگر والدین اپنی بیٹی کو اپنی حثیت کے مطابق صرف کپڑے یا زیور دیں تو کیا وہ بھی جہیز دینے میں آئیں گے -
2-اور اگر لڑکی کی شادی جہاں ہو رہی وہ لڑکی والوں سے کم حثیت ہیں اور لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کو اپنی حثیت کے مطابق گھر بنوا کر اور سیٹ کر کے اس نیت سے دے رہے ہیں کہ ہماری بیٹی ان چیزوں کی عادی ہے اور اس کو بعد میں مشکل نہ ہو تو کیا یہ جائز ہے کیونکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم بیٹوں کو بھی تواچھا سیٹ کرتے ہیں اور دوسروں کی بھی تو مدد کرتے ہیں پھر اپنی بیٹی کو کیوں نہ دیں ؟
3- کیا اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ ہجرت کے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو عائشہ رضی اللہ عنھا کی رخصتی کے وقت پیسے دیے تھے -
4- اگر لڑکی والوں کے رشتہ دار یا دوست احباب لڑکی کو کوئی تحفہ دیتے ہیں تو کیا وہ بھی جہیز میں شمار ہو گا -
اور مہربانی فرما کر جہیز نہ دینے کے بارے مٰیں کوئی دلیل بتا دیجیے -
الجواب:
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لیں کہ شادی بیاہ ہو یا کوئی اور موقعہ ایک دوسرے کو تحفہ دینے کی شریعت بھی ترغیب دیتی ہے ۔ البتہ اولاد کے بارہ میں شریعت اسلامیہ نے یہ قانون رکھا ہے کہ ان کو تحفہ دینے میں برابری کی جائے ۔
اور شادی کے موقعہ پر تحفہ دینے کے دلائل بھی سنت نبوی میں موجود ہیں ۔ اور پھر والدین کی طرف سے بیٹی کو شادی کے 
موقعہ پر یا بعد میں تحائف دینے کے بھی دلائل موجود ہیں ۔ 
اور جہیز کا معنى سامان ہے ۔ خواہ کسی بھی قسم کا ہو‘ تو اس معنى میں تو وہ تحائف جنہیں کوئی بھی شخص لے کر جاتا ہے جہیز ہی ہوتے ہیں ۔ اور شریعت میں یہ امر مستحسن ہے ‘ قبیح نہیں ۔
جس جہیز کی مذمت ا ہل علم کرتے ہیں اور کرتے چلے آئے ہیں ‘ وہ ایک خاص قسم کی چیز ہے ۔ جس میں لڑکی کے والدین کو مجبور کرکے کچھ حاصل کیا جاتا ہے ۔ یا معاشرہ کی ریت ورسم کی بناء پر لڑکی والےاپنی بیٹی کو اپنی بساط سے بڑھ کر تحائف دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جسکی عدم موجودگی میں ساری زندگی لڑکی کو طعنے جھیلنے پڑتے ہیں ۔ سو یہ جہیز یا ایسے تحائف شریعت اسلامیہ ممنوع و غیر مستحسن ہیں !
اب آپکے سوالات کے جوابات کی طرف آتے ہیں :
۱۔ درست ہے ۔
۲۔ درست ہے
۳۔ معلوم نہیں
۴۔ نہیں ۔
 






