زید نے اپنے والد/ والدہ کو تحفہ کے طور پر پیسے یا سونا بھیجتا ہے اب چونکہ اسکے والد/ والدہ کی وفات ہو چکی ہے تو اس صورت میں کیا زید اپنا وہ تحفہ واپس لے سکتاہے؟
یا اسے اپنا تحفہ واپس لینے کیلئے اپنے دوسرے بھائیوں/ بہنوں کی اجازت لینی ہوگی؟
مہربانی فرماکر کتاب و سنت کے دلائل کی روشنی میں جوا ب دیں۔
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب وإلیہ المرجع والمآب
کسی بھی صورت میں کوئی بھی تحفہ واپس نہیں لیا جاسکتا ۔ ہاں والد اپنی اولاد کو دیا گیا تحفہ واپس لے سکتا ہے ۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَقِيءُ ثُمَّ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنا تحفہ واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے اور پھر اس قے کو چاٹنا شروع کر دیتا ہے ۔ (صحیح بخاری : 2589)
عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً أَوْ يَهَبَ هِبَةً فَيَرْجِعَ فِيهَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ وَمَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَأْكُلُ فَإِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِهِ
عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کوئی عطیہ یا تحفہ دے اور پھر اسے واپس لے لے , ہاں والد جو کچھ اپنی اولاد کو دیتا ہے وہ اسے واپس لے سکتا ہے اور اس شخص کی مثال جو عطیہ دے کر واپس لیتا ہے اس کتے کی طرح ہے جو کھاتا رہتا ہے حتى کہ سیراب ہو جائے اور پھر پیٹ بھرنے کے بعد قے (الٹی) کر دیتا ہے اور پھر اس قے کو دوبارہ کھانے لگ جاتا ہے ۔ (سنن أبی داود : 3539)
 






