سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ : ایک لڑکی کا نکاح اور رخصتی ہو چکی تھی , کچھ ماہ بعد بغیر طلاق کے اس لڑکی کا نکاح عمدا دوسرے لڑکے سے کرا دیا گیا ۔ کیا یہ دوسرا نکاح صحیح ہے؟ اس دوسرے نکاح کو منعقد کرنیوالوں کا شرعی حکم کیا ہے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اللہ رب العالمین نے ایسی  عورتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے جن سے نکاح کرنا حرام ہے ان عورتوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جو شادی شدہ ہیں :
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ (النساء : ۲۴)
اورعورتوں میں سے شادی شدہ عورتیں بھی (تم پر حرام کردی گئی ہیں )
لہذا ایسی عورت جو شادی شدہ ہو اور اسکا خاوند موجود ہے اس نے اسے طلاق بھی نہیں دی , تما م تر مردو ں پر حرام ہے , کوئی بھی اس سے اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتا جب تک انکے خاوند انہیں طلاق نہیں دے دیتے یا فوت نہیں ہو جاتے اور وہ عورتیں اپنی عدت مکمل نہ کر لیں ۔
صورت مسؤلہ میں دوسرا نکاح باطل ہے ۔ اور لڑکی اپنے پہلے خاوند ہی کی بیوی ہے ۔
ہذا , واللہ أعلم و علمہ أکمل واتم , ورد العلم الیہ أسلم, والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم
 






