Powered by Blogger.

بریلویوں اور دیوبندیوں کے چند اعتراضات

شئیر کریں


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شیخ جنوبی پنجاب کے بریلویوں اور دیوبندیوں نے 13 سوالات پر مشتمل ایک اشتہار چھپوایا ہے،اور عام لوگوں میں تقسیم کررہے ہیں۔جس سے سادہ لوح افراد پریشان ہورہے ہیں۔ براہ مہربانی ان کے مدلل جواب عنائت فرمائیں۔تاکہ ہم ان کا فوری اشتہار چھپواکر ان کے رد میں تقسیم کرسکیں۔ جزاک اللہ خیرا



: سوالات:

1) کوئی بھی اہل حدیث ثابت کرے کہ رفع الیدین سے نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے،جیسے مسواک کرنے سے ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔اور نہ کرنے سے کم ہوجاتا ہے۔

2) ثابت کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کا حکم دیا تھا۔

3) آخری سلام امام بلند آواز سےاور مقتدی آہستہ سے کہے۔

4)قعدہ میں امام اور مقتدی آہستہ اللہ اکبر کہیں۔

6) سجدہ سے سر اٹھاتے وقت امام بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ آواز سے آمین کہے

7) رکوع سے سر اٹھاتے وقت امام بلند آواز سے سمع اللہ لمن حمدہ اور مقتدی آہستہ ربنا ولک الحمد کہے۔ رکوع والی تسبیح میں امام اور مقتدی آہستہ پڑھیں

9) رکوع والی تکبیرات امام بلند اور مقتدی آہستہ پڑھے۔

10) سورہ فاتحہ امام بلند اور مقتدی آہستہ پڑھے۔

11) سبحانک اللہ ھم وابحمدک۔۔۔۔امام اور مقتدی آہستہ پڑھیں۔

12) تکبیر تحریمہ آمام بلند اور مقتدی آہستہ پڑھیں۔

13)سجدہ میں جاتے ہوئے امام بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ آواز سے اللہ اکبر کہے



الجواب:


۱۔ جی ہاں رفع الیدین کرنے سے نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور نہ کرنے سے ثواب میں کمی آ جاتی ہے ۔ اسکی دلیل قرآن اور حدیث دونوں میں موجود ہے :
اللہ تعالى کا فرمان ہے :
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا (سورۃ الأنعام : ۱۶۰)
جس نے بھی کوئی ایک نیکی کی تو اسکے لیے اسی جیسی دس نیکیا ں ہیں ۔
یعنی نیکی کا ہر کام کرنے پر دس نیکیاں ملتی ہیں ۔
اور یہ بات معلوم ہے کہ رفع الیدین کرنا نیکی ہے ۔ 
لہذا ثابت ہو ا کہ ایک مرتبہ رفع الیدین کرنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں ۔ اور جو شخص رفع الیدین نہیں کرتا وہ ان نیکیوں سے محروم ہو جاتا ہے ۔
اسی طرح عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : 
إنه يكتب في كل إشارة يشيرها الرجل بيديه في الصلاة بكل أَصبع حسنة أو درجة (حسن)
آدمی اپنی نماز میں جب بھی دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرتا ہے تو ہر ا شارہ کرنے کی وجہ سے ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی یا ایک درجہ لکھ دیا جاتا ہے ۔


المعجم الکبیر للطبرانی , ج۱۷ ص ۲۹۷ ح ۸۱۹
یہ موقوف روایت حکماً مرفوع ہے ‘ کیونکہ اس میں محدود اجر وثواب کا ذکر ہے جو کہ نبی کریم ﷺکے بتائے بنا معلوم نہیں ہو سکتا ۔
اور یہ حدیث بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے کہ رفع الیدین کرنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں ۔

۲۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ویسے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے جس طرح وہ خود نماز پڑھا کرتے تھے ۔ لہذا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ عمومی حکم رفع الیدین کو بھی شامل ہے ۔

۳-۱۳ ۔ آخری دس سوالوں کا جواب ایک ہی بات میں ہے اسے اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ 
اللہ تعالى نے ذکر کرنے کے لیے ایک قانون متعین فرمایا ہے 
اللہ تعالى کا فرمان ہے : 

واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ

(الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالى نے ذکر کا اصول بتایا ہے کہ اللہ کا ذکر دل میں , اونچی آواز نکال بغیر کیا جائے ۔
لہذا تمام تر اذکار دل میں ہی کیے جائیں اور اونچی آواز نکالے بغیر کیے جائیں , ہاں جو اذکار جن مواقع پر بآواز بلند کرنا ثابت ہیں وہ ان موقعوں پر اونچی آواز سے کیے جائیں گے ۔ کیونکہ وہ شرعی دلیل کے ذریعہ اس قاعدہ کلیہ سے مستثنى ہو گئے ہیں ۔
3) آخری سلام امام کا بلند آواز سےکہنا دلیل شرعی صحیح حدیث سے ثابت ہے اور مقتدی کا اونچی آواز کہنا ثابت نہیں لہذہ وہ آہستہ سے کہے۔
4)قعدہ میں امام کا بآواز بلند تکبیر کہنا حدیث سے ثابت ہے اور مقتدی کے لیے یہ ثابت نہیں لہذا وہ آہستہ اللہ اکبر کہیں۔
6) سجدہ سے سر اٹھاتے وقت امام کے لیے بلند آواز سےتکبیر کہنا ثابت ہے اور مقتدی کے لیے ثابت نہیں لہذا وہ آہستہ آواز سے تکبیر کہے
7) رکوع سے سر اٹھاتے وقت امام کا بلند آواز سے سمع اللہ لمن حمدہ کہنا صحیح حدیث سے ثابت ہے اور مقتدی کے لیے نہیں لہذا مقتدی آہستہ ربنا ولک الحمد کہے۔ رکوع والی تسبیح میں امام اور مقتدی آہستہ پڑھیں گے کیونکہ دونوں کے لیے جہر کرنا ثابت نہیں ۔
9) رکوع والی تکبیرات امام کے لیے بلند آواز سے کہنا ثابت ہے اور مقتدی کے لیے نہیں لہذا مقتدی آہستہ کہے۔
10) سورہ فاتحہ امام کے لیے بلند آواز سے پڑھنا ثابت ہے اور مقتدی کے لیے نہیں لہذا مقتدی آہستہ پڑھے۔
11) سبحانک اللہ ھم وابحمدک۔۔۔۔امام اور مقتدی آہستہ پڑھیں گے کیونکہ دونوں کے لیے یہ کلمات جہرا کہنا ثابت نہیں ۔
12) تکبیر تحریمہ امام بلند اور مقتدی آہستہ کہے گا کیونکہ امام کے لیے بلند آواز سے کہنا ثابت ہے جبکہ مقتدی کے لیے نہیں ۔
13)سجدہ میں جاتے ہوئے امام بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ آواز سے اللہ اکبر کہے کیونکہ اس موقعہ پر امام کے لیے جہرا تکبیر کہنا ثابت ہے جبکہ مقتدی کے لیے ثابت نہیں ۔

الغرض ذکر ہمیشہ سرا ‘ اونچی آواز نکالے بغیر ہی کیا جائے گا ‘ الا کہ کسی خاص موقع پر کسی خاص حالت میں جہرا ذکر کرنے کے کوئی دلیل موجود ہو گی تو وہ موقع عمومی اصول سے مستثنى ہو گا ۔

اور عمومی قاعدہ میں سے بعض امور کا مستثنى ہونا صرف یہیں نہیں بلکہ اور بھی کئی مقامات پر ہے ۔
مثلا
اللہ تعالى کا عمومی اصول اور قانون ہے کہ جو مر جاتا ہے وہ دوبارہ دنیا پر نہیں آتا ۔ اس اصول کو اللہ نے قرآن میں یوں بیان فرمایا ہے :
وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (الأنبیاء : 95 )
لیکن قرآن مجید میں ہی بہت سے ا یسے لوگوں کا تذکرہ بھی فرمایا ہے جنہیں موت دینے کے بعد اللہ نے زندگی بخشی ۔مثلا :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ (البقرۃ: 243)
اور 
ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرۃ : 56)
اور 
أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(البقرۃ : 259) 


سرنامہ