Powered by Blogger.

فہم صحابہ و سلف کے متعلق اک اصولی سوال؟

شئیر کریں


السلام علیکم 

اصول تفسیر کے متعلق اک سوال ہے کہ اگر فہم صحابہ و فہم سلف بلکل ہی حجت نہیں . تو اگر کسی قرآنی آیت کی تفسیر کرنی ہو اور اسکی تفسیر ہمیں قرآن کی کسی اور آیت یا حدیث رسول سے نہ ملے اور صحابی سے اس آیت کی تفسیر مل جائے تو کیا اب بھی اس صحابی کا اس آیت کے متعلق وہ فہم حجت ہوگا یا نہیں ؟ کیوں کہ قرآن و سنت سے تو ٹکرانا تو دور کی بات ، اس سے تو اسکی دلیل مل ہی نہیں رہی ۔ مثال کے طور پر جیسا کہ آیت تحکیم کی تفسیر میں ابن عباس رضی الله عنہ کی تفسیر پیش کر کے تکفیری فکر کے افراد کا رد کیا جاتا ہے کہ یہ کفر دون کفر ہے۔!

 تو کیا ایسی صورت میں اس صحابی کا فہم حجت ہے یا نہیں ؟ اور اس سے بھی اک قدم اور آگےاگر اسکی تفسیر صحابی سے بھی نہ ملے توکیا اب بھی وہ فہم سلف پہ اسکو پرکھنا ضروری نہیں ؟

الجواب:

اگر کسی کو کسی آیت یا حدیث کی تفسیر وتشریح آیت یا حدیث سے نہ مل رہی ہو تو اللہ تعالى نے حکم دیا ہے :

 فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (الأنبیاء : ۷)

 اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو ۔

لہذا جسے قرآن یا حدیث کی تشریح وتوضیح قرآن یاحدیث سے نہیں مل رہی وہ ایسے شخص سے پوچھ لے جسے اس آیت یا حدیث کی تشریح وتفسیر قرآن وحدیث سے مل گئی ہے ۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کفر دون کفر کی بنیاد بھی قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالى نے فرمایا ہے : وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء :93)

 جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن کا قتل شاید ابدی جہنمی اور کافر ہے ۔ لیکن اللہ تعالى نے فرمایا ہے :

 وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا (الحجرات : ۹)

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنوں کے آپس میں قتل وقتال کرنے والے دونوں گروہ مؤمن ہی رہتے ہیں ۔ تو ثابت ہوا کہ کچھ کفر , دون کفر بھی ہے ۔ یعنی کفر اصغر بھی ہے ۔ اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے :

 سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ (صحیح بخاری : ۴۸)

 جس سے مسلمان سے قتل وقتال کرنا کفر معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن رسول اللہ کا فرمان :

إِذَا التَقَى المُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالقَاتِلُ وَالمَقْتُولُ فِي النَّارِ (صحیح البخاری : ۳۱)

 یہ واضح کرتا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں رہتے مسلمان ہی ہیں۔ تو اس سے بھی ثابت ہوا کہ یہ کام کفر تو ہے لیکن کفر مخرج عن الملہ نہیں بلکہ اس سے بندہ مسلم ہی رہتا ہے , کافر نہیں ہوتا ۔ تو کفر دون کفر ثابت ہوگیا۔ اسی طرح خاوندوں کی نافرمانی سے متعلق رسول اللہ کا فرمان " وتكفرن العشير " بھی کفر دون کفر پر دلالت کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ کفر خاوندوں کا ہے اللہ کا نہیں ۔ یعنی سلف کے ہر صحیح قول پر قرآن وحدیث سے دلیل موجود ہوتی ہے ۔ تو اس میں بھی اصل حجت اور دلیل قرآن وحدیث ہی ہوتا ہے ۔ نہ کہ فہم سلف یا قول سلف ! اور اگر سلف کے کسی قول پر قرآن وحدیث کی دلیل نہ ہو تو وہ صحیح ہی نہیں ہوتا , بلکہ وہ باطل ہوتا ہے ! خوب سمجھ لیں ۔

 اور آپ کے علم میں اضافہ کے لیے عرض ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی فہم صحابی کو حجت نہیں جانتے تھے ! اسکے بھی بہت سے دلائل ہیں ۔ مثلا : ایک مرتبہ ایک شخص ابو موسى اور سلیمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما سے ایک مسئلہ پوچھا تو ان دونوں نے اس مسئلہ کا حل بتایا اور کہا کہ جا کہ ابن مسعود رضی اللہ سے بھی یہ مسئلہ پوچھ لو وہ بھی ہماری موافقت کریں گے ۔ وہ گیا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور ان دونوں کا فتوى بھی سنایا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے :

قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، وَلَكِنِّي أَقْضِي فِيهِمَا كَمَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اگر میں انکی موافقت کروں تو میں گمراہ ہو جاؤں گا , اور ہدایت یافتگان میں سے نہیں رہوں گا !

 ۔ میں تو اس بارہ میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ۔ جامع الترمذی : ۲۰۹۳ صرف یہی نہیں اور بھی اسکی بہت سی مثالیں کہ صحابی نے ایک فتوى دیا تو دوسرے صحابی نے اسکی دلیل کی بنیاد پر مخالفت کی ۔ وقت فرصت ان شاء اللہ کبھی ایسے واقعات جمع کر دیں گے ۔

سائل کا دوسرا سوال:


جزاک الله شیخ صاحب ،
 تھوڑی سی مزید تفصیل عرض کر دیں : ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جو میرے رستے اور میرے صحابہ کے رستے پر ہوگا وہی فرقہ ناجیہ ہوگا اوردوسری حدیث ہے کہ میری سنت اور میرے خلفا کی سنت کو لازم پکڑو . اور تیسری مشہور حدیث کہ میرے صحابہ میں سے جسکی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے .

.تو کیا ان حدیث سے نبیﷺ کے فرامین کے ساتھ صحابہ کے فہم کی حجیت ثابت نہیں ہوتی ؟ اور اک قول بھی حضرت عمر کا سنن دارمی میں کہ جب تم سے کوئی قرآن کی ملی جلی آیتوں سے بحث کرے تو تم اسکو صحابہ کی طرف لوٹا دو کیوں کہ صحابہ قرآن کو تم سے بہتر جانتے تھے. اور اک واقعہ پیش کیا جاتا ہے ابن عباس کا خوارج کے ساتھ مناظرے میں کہ انہوں نے کہا تھا کہ صحابہ قرآن زیادہ جانتے ہیں یا تم..
 ان دلائل سے ثابت کرتے ہیں کچھ علماء کہ صحابہ کا فہم حجت ہے ،الا یہ کہ حدیث سے ٹکراے نہ ۔


الجواب:

تیسری روایت تو ثابت ہی نہیں ہے ۔ اور پہلی دونوں روایات میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفاء راشدین کی سنت یا میرا اور میرے صحابہ کا رستہ در حقیقت ایک ہی چیز ہے ۔ یعنی جو رستہ نبی کا ہی وہی صحابہ کا ! ۔

 اور جوسنت نبی کی ہے وہی خلفائے راشدین کی ! ۔ اس سے تو بات اور بھی زیادہ سکڑ گئی ہے ۔ یعنی وہ رستہ اپناؤ جسے میں نے بھی اپنایا اور صحابہ نے بھی اپنایا اور وہ سنت اپناؤ جسے میں نے بھی اپنایا اور میرے خلفائے راشدین نے بھی اپنایا ۔ یعنی نبی کی سنت اور خلفاء کی سنت در اصل ایک ہی سنت ہے ۔

 یہ نہیں کہ نبی کی سنت الگ ہو اور خلفاء کا طریقہ الگ ہو یا باالفاظ دیگر ایک ایساطریقہ جو صرف صحابہ یا خلفاء کا ہو نبی کا نہ ہو تو اسے اپنانے کا حکم نہیں دیا جارہا ۔ اسی کی مثال قرآن مجید میں بھی ہے ۔ اللہ تعالى نے فرمایا ہے :

 أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرۃ : ۱۳۳)

 کیا تم اس وقت حاضر تھے جب یعقوب علیہ السلام کی موت کا وقت قریب آیا ۔ جب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے ۔ تو انہوں نے کہا ہم آپکے الہ , اور آپکے آباء ابراہیم , اسماعیل اور اسحاق کے الہ کی عبادت کریں گے , جو کہ ایک ہی ا لہ ہے اور ہم اسکے لیے فرمانبردار ہونے والے ہیں ۔ تو اس آیت میں یعقوب علیہ السلام کی اولاد کا کہنا " ہم آپکے الہ , اور آپکے آباء ابراہیم , اسماعیل اور اسحاق کے الہ کی عبادت کریں گے" یہ معنى نہیں رکھتا کہ انکے الہ الگ الگ ہیں ۔ بلکہ خود انہوں نے اپنے الفاظ سے ہی وضاحت کردی کہ یہ ایک ہی الہ ہے جو سب کا الہ ہے ۔ یہی معاملہ ان احادیث نبویہ میں بھی ہے ۔ کہ میرا راستہ اور میرے صحابہ کا راستہ یا میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت ۔ یعنی وہ سنت جو ہم سب کی ہے یا وہ راستہ جو ہم سب کا ہے ۔ اس سے صحابہ کے فہم یا قول کی حجیت نہی بلکہ عدم حجیت ثابت ہوتی ہے ۔ اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان وہ مفہوم جو میں نے بیان کیا ہے , صحابہ نے بھی یہی سمجھا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جب زوراء پر جمعہ کے دن آذان دینے کا حکم دیا تو سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بدعت قرار دیا ۔ وہ فرماتے ہیں :

 الْأَذَانُ الْأَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ جمعہ کے دن پہلی آذان بدعت ہے ! (مصنف ابن ابی شیبۃ:۵۴۳۷, ۵۴۴۱ صحیح)

 اور نہ صرف یہ کہ صحابہ نے اسے بدعت کہا بلکہ تابعین نے بھی اسے بدعت قرار دیا جن میں حسن بصری رحمہ اللہ سرفہرست ہیں وہ فرماتے ہیں : ا

لنِّدَاءُ الْأَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ الَّذِي يَكُونُ عِنْدَ خُرُوجِ الْإِمَامِ، وَالَّذِي قَبْلَ ذَلِكَ مُحْدَثٌ (مصنف ابن ابی شیبۃ : ۵۴۳۵ صحیح)

 جب امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے وہی جمعہ کی پہلی اذان ہے اور جو اس سے پہلے دی جاتی ہے وہ بدعت ہے ۔ یہی بات امام زہری رحمہ اللہ نے ا ن الفاظ میں کہی :

 أَوَّلُ مِنْ أَحْدَثَ الْأَذَانَ الْأَوَّلَ عُثْمَانُ 
عثمان رضی اللہ عنہ وہ ہیں کہ جنہوں نے سب سے پہلے (جمعہ کی )پہلی آذان کی بدعت شروع کروائی ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ۵۴۳۸,۵۴۴۰ صحیح)

 ان تمام تر لوگوں کو معلوم تھا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ راشد ہیں , اور انہوں نے ایک ایسا کام کیا ہے جس سے ممانعت کی کوئی واضح نص رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے موجود نہیں ہے ۔ وہ انکے اس عمل کو خلیفہ راشد کی سنت قرار دے سکتے تھے , مگر انہوں نے اسے خلیفہ راشد کی سنت نہیں بلکہ خلیفہ راشد کی "بدعت" قرار دیا ۔ اور اسکا انکار کیا ۔ کیونکہ یہ عمل رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے فرمان "من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد" کے عموم میں شامل ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ لہذا اس امر کی وضاحت سے ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایسے اقوال وافعال کو جن پر کتاب وسنت کی دلیل موجود نہ ہو , بدعت قرار دیتے تھے اور انہیں حجت نہیں جانتے تھے بلکہ اسے رد ہی کیا کرتے تھے ۔ اور اسی بات سے فہم صحابہ اور منہج صحابہ کے مابین فرق بھی واضح ہو جاتا ہے ۔ صرف یہی نہیں اسکی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال وافعال کو قرآن وسنت کے میزان میں تولا ہے ۔ اور جو وحی الہی کے موافق ہوا اسے مان لیا اور جو نا موافق ہوا اسے ٹھکرا دیا ۔
ور اک قول بھی حضرت عمر کا سنن دارمی میں کہ جب تم سے کوئی قرآن کی ملی جلی آیتوں سے بحث کرے تو تم اسکو صحابہ کی طرف لوٹا دو کیوں کہ صحابہ قرآن کو تم سے بہتر جانتے تھے.

ور اک واقعہ پیش کیا جاتا ہے ابن عباس کا خوارج کے ساتھ مناظرے میں کہ انہوں نے کہا تھا کہ صحابہ قرآن زیادہ جانتے ہیں یا تم...!! ان دلائل سے ثابت کرتے ہیں کچھ علماء کہ صحابہ کا فہم حجت ہے ،الا یہ کہ حدیث سے ٹکراے نہ ۔!!!!

اولا : یہ دلائل , در اصل دلائل ہی نہیں !

 ۔ کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال وافعال خود ہی حجت نہیں ہیں , تو انہیں دلیل کے طور پر بھی پیش نہیں کیا جاسکتا ۔

 ثانیا : عمر رضی اللہ عنہ یا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول میں یہ کہیں موجود نہیں ہے کہ تم صحابہ کی بات بلا دلیل مان لو !۔ صحابہ کی طرف لوٹانے کی بات انہوں نے اللہ تعالى کے حکم "فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون" پر عمل کرتے ہوئے کہی ہے ۔ اور اللہ تعالى نے اہل الذکر سے سوال کرنے کی بات کو بھی "بالبينات والزبر"سے مقید کیا ہے ۔ کہ اہل ذکر سے بھی پوچھو تو دلائل وبراہین کی روشنی میں , ان سے انکی بات پر دلیل طلب کرو ۔ تو اس صورت میں بھی حجت تو صرف وحی الہی ہی بنتی ہے ۔ کیونکہ اہل ذکر سے سوال کتاب وسنت کی بینات سے پوچھا جائے گا ۔ خوب سمجھ لیں ۔ 
سرنامہ