Powered by Blogger.

إن کنتم مؤمنین اور خلود فی النار کے الفاظ کسی عمل کے کفریہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں ؟

شئیر کریں


السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آج کل فہم سلف کی حجیت کا مسئلہ بہت گرم ہے ۔ پاکستان میں بھی بہت سے لوگ اسکا شکار ہوتے جار رہے ہیں ۔
اسی مسئلہ کی تحقیق میں سرچ کرتے کرتے آپکی فیس بک وال تک پہنچا تو وہاں کچھ اشکالات تھے ،
 جنکے جوابات آپ کی طرف سے تاحل نہیں دیے أئے ۔ شاید ان پر آپکی نظر نہ پڑہی ہو ۔ میں انہیں یہاں نقل کردیتا ہوں تاکہ آپ انکا حل فرمائیں ۔ ۱۔ جس عمل کے بارہ میں قرآن مجید میں یہ کہہ دیا جائے کہ اسکا مرتکب ابدی جہنمی ہے , کیا یہ کہہ دینے سے اس عمل کا کفریہ یا شرکیہ ہونا لازم آتا ہے ؟ مثلا سود خور اور مؤمن کے قاتل کے بارہ میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ ۲۔ جس عمل کے ترک یا فعل کا حکم ان کنتم مؤمنین کہہ کر دیا جائے , اس حکم کی خلاف ورزی پر کفر لازم آتا ہے ؟
ایک شخص نے یہ عبارت تحریر کی ہے :

محترم شیخ مسئلہ جیسے آپ بیان کر رہےہیں درست ہے لیکن اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیے آپ کے دلائل مضبوط نہیں سورۃ البقر 278 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کےلیے تیار ہو جاو۔یہاں کافر سود خود اور مومن سود خور کا فرق آپ کیسے کریں گے۔اس آیت سے تو صاف واضح ہو رہا ہے کہ اگر تم سود نہیں چھوڑو گے تو تم مومن نہیں ہو ۔آپ کا یہ کہنا بھی عجیب ہے [سب سے پہلی بات یہ کہ جب کوئی شخص مؤمن ہو تو اسکے کافر ہونے کی جب تک کوئی دلیل نہ مل جائے اس وقت تک اسے مؤمن ہی قرار دیا جائے گا]ہم نے آپ سے سود خور کے مومن ہونے کی دلیل ہی تو پوچھی ہے ۔۔ کیونکہ آیت میں ان کنتم مومینین کہہ کر اللہ نے سود کا چھوڑنا ایمان کے لیے شرط قرار دیا ہے اور خطاب بھی ایمان والوں سے ہے کفار سے نہیں۔۔ جو شخص خوارج اور مرجیہ کے مقابلے میں اہل سنت کے موقف کو قبول کرتا ہے اس بنیاد پر کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے براہ راست شاگرد تھے انہوں نے تابعین اور ائمہ دین تک جو دین پہنچایا وہی حق ہے اس اہل سنت کے موقف میں نواقض اور کبیرہ اور صغیرہ کی تقسیم ملتی ہے اور فرقہ ناجیہ کی نشانی بھی ان کی پیروی کرنا ہے :آپ ﷺ نے فرمایا ’’میرے صحابہ کے طریقہ پر عمل کر کے میری سنت کی حفاظت کرو پھر تابعین اور تبع تابعین کے طریقہ پر چلو پھر اس کے بعدجھوٹ پھیل جائے گا‘‘۔(ابن ماجہ کتاب الاحکام :۲۳۶۳)

الجواب:

۱۔ جس عمل کے بارہ میں قرآن مجید میں یہ کہہ دیا جائے کہ اسکا مرتکب ابدی جہنمی ہے , کیا یہ کہہ دینے سے اس عمل کا کفریہ یا شرکیہ ہونا لازم آتا ہے ؟ مثلا سود خور اور مؤمن کے قاتل کے بارہ میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔

تأبید یا خلود فی النار کے الفاظ جس بھی معصیت کی جزاء کے لیے استعمال کیے جائیں ‘ محض ان الفاظ سے وہ معصیت کفر یا شرک نہیں بن جاتی۔ہاں اسکا مرتکب اگر کافر یا مشرک ہے تو وہ دائمی وابدی جہنمی ہوگا۔ اگرقرآن مجید سے ہی ایسے مقامات بغور پڑھ لیے جائیں تو یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے ۔ مثلا : 

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ [المؤمنون : 103]

 اور جسکے تولے گئے اعمال ہلکے ہوگئے تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈالا ‘ جہنم میں ہمیشہ رہنے والے ہونگے ۔ اس آیت میں فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ جبکہ بہت سی احادیث ایسی موجود ہیں جن میں یہ وضاحت کے کہ جو اہل ایمان ہونگے اور انکا نیکیوں کا پلڑا ہلکا رہا تو وہ بالآخر جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔ حدیث شفاعت (صحیح بخاری:۷۵۱۰)

 میں اسکی نہایت بہترین تفصیل موجود ہے کہ ایسے لوگوں کو جنہم سے نکالا جائے گا جن کے دل میں ایک دینار ‘ آدھے دینا ‘ ایک دانہ ‘ رائی کے دانہ ‘ یا ایک ذرہ بھر بھی ایمان ہوگا ۔ اور یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کچھ ایسے افراد بھی ہونگے جنکی نیکیاں گناہوں کے مقابلہ میں ہلکی ہونگی لیکن بہر حال وہ اپنے ایمان کی وجہ سے جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔ یعنی انکے لیے یہ وعید کہ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ نہیں ہے ۔ سو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خلود فی النار کی وعید کفار ومشرکین کے لیے ہی ہوتی ہے ‘ اور اگر اہل ایمان بھی اس جرم میں ملوث پائے جائیں تو وہ اس عمل کے ارتکاب سے کافر یا مشرک نہیں بن جاتے اور نہ ہی وہ ابدی و دائمی جہنمی قرار پاتے ہیں ۔ اسی طرح :

وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (النساء : ۱۴)

 اور جو بھی اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے اور اسکی حدود سے تجاوز کرے تووہ (اللہ) اسے آگ میں داخل کر دے گا اور اسکے لیے رسوا کن عذاب ہے ۔

أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ (التوبۃ:۶۳)

 کیا انہوں نے جانا نہیں کہ جو بھی اللہ اور اسکے رسول کی مخالفت کرے گا تو یقینا اسکے لیے جہنم کی آگ ہے وہ اس میں ہمیشہ رہنے والا ہے اور یہ بہت بڑی رسوائی ہے ۔

 بَلَى مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيـئَتُهُ فَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [البقرة : 81]

 کیوں نہیں ! جس نے بھی کوئی برائی کی اور اسکی غلطی نے اسے گھیر لیا تو وہ آگ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ 

وَالَّذِينَ كَسَبُواْ السَّيِّئَاتِ جَزَاء سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ مَّا لَهُم مِّنَ اللّهِ مِنْ عَاصِمٍ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعاً مِّنَ اللَّيْلِ مُظْلِماً أُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [يونس : 27]

 اور وہ لوگ جنہوں نے برائیاں کیں ‘ ہر برائی کا بدلہ اسی کی مثل ہے ‘ اور انہیں ذلت ڈھانپ لے گی ‘ انہیں اللہ سے کوئی بچانے والا نہیں ‘ گویا کہ انکے چہرے سیاہ رات کے ٹکڑے سے ڈھانپے گئے ہیں ۔ وہ آگ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے 

۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ [الزخرف : 74]

 یقینا مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔

 وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً [الجن : 23]

 اور جو بھی اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اسکے لیے جنہم کی آگ ہے وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ درج بالا آیات بینات میں ہمہ قسم معصیت و خطأ کو دائمی جہنمی ہونے کا سبب بتایا گیا ہے ۔

 خواہ وہ کبیرہ گنا ہ ہو یا صغیرہ ۔ اور خواہ اس سے توبہ کی گئی ہو یا نہ ‘ خواہ اسکے بعد نیک عمل کیا گیا ہو یا نہ ۔ لیکن اگر قرآن مجید ہی کا بغور مطالعہ کر لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وعید کا مصداق کفار ہیں ‘ اہل ایمان بہر صورت جہنم سے نکل آئیں گے ۔ اسکی ایک دلیل صحیح بخاری والی حدیث (صحیح بخاری:۷۵۱۰) بھی ہے جسکا ذکر سابقہ سطور میں گزر چکا ہے ۔ اسی طرح قرآن مجید فرقان حمید کی بہت سی آیات بھی اس پر دلالت کناں ہیں ۔ مثلا :

 الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ [النجم : 32]

 یقینا وہ لوگ جو کبیرہ گناہوں اور فحاشی سے بچتے ہیں سوائے چھوٹے گناہوں کے ‘ تو یقینا آپکا رب وسیع مغفرت والا ہے ۔ یعنی صغیرہ گناہوں کو اللہ معافی مانگے بغیر ہی معاف فرما دیتا ہے ‘ تو انکی بناء پر تابید و خلود فی النار کیوں ہوگی ۔ اسی طرح فرمایا :

 إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ [هود : 114]

 یقینا نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں ۔ تو ایسے گناہ جنکے بعد نیکیاں کرلی جائیں وہ بھی ختم ہو جاتے ہیں ۔سو ان پر اہل ایمان کے لیے خلود وتابید کی وعید چہ معنى دارد ؟ درج بالا دلائل سے واضح ہوا کہ جب کسی بھی معصیت یا گناہ کو ابدی جہنمی ہونے کا سبب قرار دیا جائے ‘ تو وہ گناہ بذات خود کفر یا شرک نہیں بن جاتا ۔کیونکہ بہت سے ایسے گناہ جنکے بارہ میں خلود فی النار کے الفاظ قرآن میں استعمال ہوئے ہیں ‘ قرآن میں ہی دیگر مقامات پر اور احادیث نبویہ میں انکے مرتکبین اہل ایمان کے لیے جنت کی نوید بھی ہے ۔جنکی مثالیں سابقہ سطور میں گزر چکی ہیں ۔ اسی طرح قتل مؤمن کے بارہ میں اللہ تعالى نے فرمایا ہے :

 وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء :۹۳)


 اور جس نے بھی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کیا تو اسکی جزاء جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہنے والا ہے اوراس پر اللہ غضبناک ہوگا اور لعنت کرے گا اور اسکے لیے بہت بڑا عذاب ہے ۔ اور پھر مؤمن کے ایسے قاتل جو خود مؤمن ہے اسکے بارہ میں اللہ تعالى کا فرمان ہے :

وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا [الحجرات : 9]


 اور اگر مؤمنوں کے دو گروہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں تو انکے مابین صلح کرادو ۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالى نے مؤمنوں کے ان دونوں گروہوں کو مؤمن ہی کہا ہے جو آپس میں لڑ مر رہے ہیں ۔ یعنی اگر مؤمن کسی دوسرے مؤمن کو عمدا قتل کرتا ہے تووہ کافر نہیں ہو جاتا ‘ مؤمن ہی باقی رہتا ہے ۔ اور مؤمن کے بارہ میں یہ نوید موجود ہے کہ وہ بالآخر جنت میں چلا جائے گا ۔ اس دلیل سے بھی ثابت ہوتا ہےکہ کسی گناہ کے بارہ میں اگر یہ کہہ دیا جائے کہ اسکا مرتکب دائمی جہنمی ہے تویہ کہنے سے اس گناہ کے مرتکب کا کافر ہونا لازم نہیں آتا ۔ اس ساری بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ اصول " کسی بھی عمل کے ارتکاب یا ترک پر اگر خلود فی النار کی وعید سنائی جائے تو اس فعل کا مرتکب یا تارک کافر ہوتا ہے " ہی غلط ہے ! لہذا کسی بھی ایسے شخص کو کافر قرار دینے کے لیے جو کسی ایسے فعل کا مرتکب ہو جسکے ارتکاب پر خلود فی النار کی وعید سنائی گئی ہو‘ کوئی دیگر دلیل درکار ہوگی ۔ محض خلود فی النار کی وعید ایسے شخص کو کافر ثابت نہیں کرتی ۔ قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث نبویہ کے یہی وہ دلائل ہیں کہ جن کی روشنی میں اسلاف نے بھی ایسے اشخاص کو کافر قرار نہیں دیا ! کیونکہ انکے کفر پر کوئی دلیل نہیں ۔ رہا سود خور کا معاملہ تو اس ضمن میں وہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ اسکے لیے صرف خلود فی النار کی وعید ہے ‘ اور یہ وعید کسی کو کافر ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہے ۔ سو جب تک سود خور کے کافر ہونے کے بارہ میں کوئی "دلیل" نہیں پیش کی جاتی اس وقت تک اسے "کافر" قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ 

 ۲۔ جس عمل کے ترک یا فعل کا حکم ان کنتم مؤمنین کہہ کر دیا جائے , اس حکم کی خلاف ورزی پر کفر لازم آتا ہے ؟

اس دعوى کا سبب صرف اور صرف قرآن مجید فرقان حمید کا بغور مطالعہ نہ کرنا ہے ۔ کیونکہ اگر صاحب دعوى قرآن مجید سے صرف وہ آیات جن میں ان کنتم مؤمنین کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں دیکھ لیں تو اپنے دعوى سے دستبردار ہو جائیں گے ۔ اور جو بات انہوں نے کہی ہے وہ کبھی نہیں کہیں گے یعنی : 

اس آیت سے تو صاف واضح ہو رہا ہے کہ اگر تم سود نہیں چھوڑو گے تو تم مومن نہیں ہو

اور

آیت میں ان کنتم مومینین کہہ کر اللہ نے سود کا چھوڑنا ایمان کے لیے شرط قرار دیا ہے

میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں جہاں ان کنتم مؤمنین کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں لیکن ایمان میں کوئی شبہ بھی نہیں کرسکتا !۔ ملاحظہ فرمائیں :

إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران: 175)

 یقینا یہ شیطان ہے جو اپنے اولیاء سے ڈراتا ہے , سو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو ۔ اس میں اللہ تعالى نے اہل ایمان کو صرف اللہ سے ڈرنے کا کہا ہے اور ساتھ ہی ان کنتم مؤمنین کے الفاظ بھی بولے ہیں ۔ جبکہ قوم موسى کے اہل ایمان اپنے دشمنوں سے ڈر رہے تھے : 

قَالُوا يَامُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ * قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (المائدۃ : ۲۲,۲۳)

 انہوں نے کہا اے موسى وہاں تو بڑےجابر لوگ ہیں ۔ اور ہم اس وقت تک وہاں نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ‘ اگر وہ نکل گئے تو ہم داخل ہونے والے ہونگے ۔ جو لوگ ڈر رہے تھے ان میں سے دو آدمیوں نے جن پر اللہ نے انعام کیا تھا کہا : ان پر دروازے سے داخل ہوجاؤ تو جب تم وہاں سے داخل ہو جاؤ گے تو تم ہی غالب آنے والے ہو ۔ اگر تم مؤمن ہو ۔ 
موسی علیہ السلام کے صحابہ اپنے دشمنوں سے ڈر رہے تھے ۔ اور انکے ایمان میں کوئی شک نہیں ۔ لیکن اللہ نے کہا ہے اگر تم مؤمن ہو تو مجھ سے ڈرو شیطان کے اولیاء سے نہ ڈرو ۔ اسی طرح صحابہ کرام بھی دشمنوں سے خائف تھے :

 وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (الانفال :۲۶)

وہ وقت یاد کرو جب تم تھوڑے سے تھے اور زمین میں کمزور تھے ۔ تم ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچک نہ لیں ‘ تو اللہ نےاپنی نصرت سے تمہاری تایید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق عطاء فرمایا تاکہ تم شکر کرو ۔ یعنی رسول اللہ کے اصحاب بھی اپنے دشمنوں سے خائف تھے ۔ جبکہ اللہ تعالى نے فرمایا ہے اگر تم مومن ہو تو اللہ سے ڈرو۔

أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (التوبۃ : ۱۳)

 تم ایسی قوم سے قتال کیوں نہیں کرتے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑی ہیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا ‘ اور انہوں نے تم سے پہل کی ہے ؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو ‘ اگر تم مؤمن ہو ۔ اس آیت میں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اللہ کے سوا اوروں سے بھی ڈرا جاسکتا ہے ‘ لیکن جن جن سے ڈرا جاتا ہے ان سب میں اللہ تعالى زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے ۔ درج بالا وضاحت سے ثابت ہوا کہ جس کام کے فعل یا ترک پر إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ کہہ دیا جائے اس میں حکم عدولی پر کفر لازم نہیں آتا ۔ یعنی ایمان اس کام کے فعل یا ترک سے مشروط نہیں ہو جاتا ۔

:آپ ﷺ نے فرمایا ’’میرے صحابہ کے طریقہ پر عمل کر کے میری سنت کی حفاظت کرو پھر تابعین اور تبع تابعین کے طریقہ پر چلو پھر اس کے بعدجھوٹ پھیل جائے گا‘‘۔(ابن ماجہ کتاب الاحکام :۲۳۶۳)

یہ حدیث کی معنوی تحریف ہے ۔ کیونکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بنُ الْجَرَّاحِ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِينَا مِثْلَ مُقَامِي فِيكُمْ فَقَالَ احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَمَا يُسْتَشْهَدُ وَيَحْلِفَ وَمَا يُسْتَحْلَفُ

 سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جابیہ میں ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان بالکل ایسے ہی کھڑے ہوئے جسطرح میں تم میں کھڑا ہوں ‘ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ میں میری حفاظت کرو پھر ان لوگوں میں جو انکے بعد آنے والے ہیں پھر ان لوگوں میں جو انکے بعد آنے والے پھر اسکے بعد جھوٹ پھیل جائے حتى کہ آدمی گواہی دے گا جبکہ اس سے گواہی طلب ہی نہ کی جائے گی اور وہ حلف دے گا حالانکہ اس سے حلف مانگا بھی نہ جائے گا۔ اور اسکا معنى واضح طور پر یہ ہے کہ میری سنت واخلاق کو میرے صحابہ میں وتابعین وتبع تابعین سے یاد کرو اور سیکھو ۔ یعنی صحابہ سے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اپنی سنت سیکھنے کا کہہ رہے ہیں ‘

 نہ کہ صحابہ کے اقوال وافعال کو حجت قرار دے رہے ہیں ! میں بھی آج یہی بات کہتا ہوں کہ صحابہ و تابعین سے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت سیکھو ۔ عصر حاضر کے علماء سے بھی سنت رسول صلى اللہ علیہ وسلم سیکھو ‘ یعنی جو چیز سیکھنی ہے وہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے ۔ اس میں ان صحابہ وتابعین وغیرہم کی وہی بات معتبر ہوگی جو نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوگی ۔ اور جو ایسی بات ہوئی جس پر نبی کی سنت یا قرآن حکیم کی دلیل نہ ہوئی وہ شریعت میں معتبر نہیں ہوگی ! 
سرنامہ