Powered by Blogger.

کن جانوروں کی قربانی جائز نہيں

شئیر کریں




سيدناعلی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہيں کہ ہميں رسول اللہ ﷺ نے حکم ديا کہ :

 " أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَيْنِ "

[[سنن أبي داود كتاب الضحايا، باب ما يكره من الضحايا (2804)، جامع الترمذي ،أبواب الأضاحي ، باب ما يكره من الأضاحي، حديث:‏(1498)]]

ہم جانور کيی آنکھیں اور کان اچھی طرح دیکھیں ۔

ياد رہے کہ كان تھوڑا کٹا ہوا ہو يا زيادہ کٹا ہوا دونوں برابر ہيں ، کتاب و سنت ميں کوئی فرق مذکور نہيں ہے۔

سيدنا براء بن عازب بيان فرماتے ہيں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگليوں سے اشارہ کرکے فرمايا:

" أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِي الْأَضَاحِيِّ فَقَالَ الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تَنْقَى "

[[سنن أبي داود كتاب الضحايا باب ما يكره من الضحايا (:‏(2802، سنن النسائي، کتاب الضحايا، باب العجفاء (( 4371]]

چار جانور قربانی ميں جائز نہيں

1۔ کانا ، جس کا کانا پن ظاہر ہو

2۔ بيمار، جس کی بيماری واضح ہو۔

3۔ لنگڑا، جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔

4۔ لاغر ، جس کی ہڈيوں ميں بالکل گودا نہ ہو۔

 سيدنا علی المرتضیٰ فرماتے ہيں کہ : " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ "

[[جامع الترمذي أبواب الأضاحي ،باب في الضحية بعضباء القرن والأذن،(1504)يہ حديث حسن لذاتہ ہے۔]]

رسول اللہ ﷺ نے کان کٹے اور سينگ ٹوٹے جانور کی قربانيی سے منع فرمايا ہے۔

يہ چند عيوب ہيں جن کی بناء پر جانور قرباني کے ليے ذبح نہيں کيا جاسکتا۔

اور جب يہ عيوب مزيد بڑھ جائيں مثلاً جانور مکمل اندھا ہوجائے يا لولا ہو يا چلنے پھرنے سے عاجز ہو تو ان صورتوں ميں بطريق اولیٰ قربانی جائز نہيں ہے۔

اور يہ عيوب جانور ميں خريدنے سے قبل موجود ہوں يا قربانی والے دن قربانی کرنے سے چند لمحے پہلے پيدا ہوجائيں دونوں صورتوں ميں قربانی جائز نہيں۔ مثلاً بے عيب جانور کو ذبح کر نے کےليے لٹايا تو اس دوران ذبح کرنے سے پہلے چھری اس کی آنکھ ميں لگ گئی يا وہ چھوٹا اور ديوار سے ٹکرانے کی وجہ سے اس کا سينگ ٹوٹ گيا تو وہ بھی قربانی کے قابل نہيں ہے۔ لہٰذا اس کي جگہ کوئی دوسرا جانور قربان کيا جائے کيونکہ قربانی بے عيب جانور کي ہوتي ہے۔

اعتراض

سيدنا ابو سعيد خدری فرماتے ہيں کہ:

" اشْتَرَيْتُ أُضْحِيَّةً فَجَاءَ الذِّئْبُ فَأَكَلَ مِنْ ذَنَبِهَا أَوْ أَكَلَ ذَنَبَهَا فَسَأَلْتُ رَسُولَ الله ﷺ فَقَالَ ضَحِّ بِهَا "

[[مسند أحمد بن حنبل 78/3، 32/3 (11334, 10995)]]

ميں نے قربانی کا جانور خريدا ، بھيڑيا آيا اس نے اس کی دم (چکی) کاٹ دی تو ميں نے رسول اللہ ﷺ سوال کيا تو آپ ﷺ نے فرمايا:

"اس کی قربانی کرلے۔"

اس روايت سے ثابت ہوا کہ اگر عيب جانور کو خريدنے کے بعد پيدا ہوا ہے تو وہ قربانی کے ليے ذبح کيا جاسکتاہے۔

جواب

اس کی سند ميں حجاج بن ارطاۃ بن ثور ، کثيرالخطأ والتدليس ہے اور روايت معنعن ہے۔ اور اصول ہے کہ مدلس کا عنعنہ قبول نہيں ہوتا اور دوسری سند ميں محمد بن قرظۃ بن کعب الأنصاری مجہول ہے اور سند ميں انقطاع بھی ہے ، جبکہ دونوں سندوں کا مدار جابر بن يزيد بن حارث الجعفی پر ہے جو کہ کذاب ہے ، حديثيں گھڑا کرتا تھا۔ اور تيسری سند ميں حجاج بن ارطاۃ کا شيخ عطيہ بن سعد بن جنادہ العوفی بھی مدلس ہے اور وہ بھی اس کو "عن" کے ساتھ ہي بيان کررہاہے۔ لہٰذا اس قسم کی ضعيف ترين روايت کو بطور دليل پيش کرنا ضعف ِ علم و عقل کي دليل ہے۔ ثانياً دم کٹا ہونا ان عيوب ميں سے نہيں جو قربانی كو مانع ہيں۔

لہٰذا قربانی کےليے جانور مخصوص کردينے يا خريدنے کے بعد بھی اگر عيب پيدا ہوجائے تو بھی اس کی قربانی جائز نہيں کيونکہ جانور کا بے عيب ہونا خريدنے يا مختص کرنے کےليے نہيں بلکہ قربانی کرنے کےليے شرط ہے۔ اسی طرح جانور کا خصی ہونا ، يہ عيب نہيں ہے بلکہ خصی جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے کيونکہ شريعت نے اس سے منع نہيں کيا ہے بلکہ مسند احمد (24525) ميں روايت موجود ہے کہ نبی کريم ﷺ نے دو خصی مينڈھے ذبح کيے قربانی کےليے۔ ليکن جانور کو خصی کرنا درست نہيں ۔ اور حاملہ جانور کی قربانی بھی کی جاسکتی ہے اور اس کا جنين بھی کھايا جاسکتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بھی اجازت دی ہے


[[(سنن أبي داؤد ، کتاب الضحايا،باب ما جاء في ذكاة الجنين (2829,2827)]]
سرنامہ