الحمد لله رب العالمين, والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين , أما بعد!
اللہ رب العالمین نے تکمیل دین اسلام کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً [المائدة : 3]
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کر دیا ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے ۔
اور امام الأنبیاء جناب محمد مصطفى صلى اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ :
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ [المائدة : 67]
اے رسول ! صلى اللہ علیہ وسلم جو کچھ آپکی طرف آپکے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس (سب کچھ ) کو پہنچا دیں ۔اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے پیغامات (الہیہ ) کو نہیں پہچایا , اللہ آپکو لوگوں سے بچائے گا ۔
اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے یقینا سارے کا سارا دین ہم تک پہنچا دیا ہے اور اسکی گواہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حجۃ الوداع کے موقع پر یوں دی "نعم قد بلغت وأدیت ونصحت" (صحیح مسلم کتاب الحج باب حجۃ النبی صلى اللہ علیہ وسلم ح 1218) ہاں آپ نے دین حق پہنچا دیا ہے , امانت ادا کردی ہے اور نصیحت فرما دی ہے ۔
اور اللہ رب العالمین نے ہمیں صرف اور صرف وحی الہی کی اتباع کا حکم دیتے ہوئے غیر وحی کی پیروی سے منع کیا اور فرمایا :
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (الأعراف : 3)
جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف وحی کیا گیا اسی کی ہی پیروی کرو اور اسکے علاوہ دیگر اولیاء کی پیروی نہ کرو تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔
اور وحی الہی صرف اور صرف کتاب وسنت میں محصور و مقصور ہے ۔ کتاب وسنت کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ بدعت ہے ۔ جس سے دین نے روکا ہے بلکہ دین میں نئی نئی بدعتیں ایجاد کرنے کو رسول اللہﷺ نے ضلالت و گمراہی سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اللہ تعالى ہم سب کو اپنے صحیح دین پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین
بدعت كی لغوی تعريف :
علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی اپنی کتاب القاموس المحیط۳/۳ میں لکھتے ہیں :
" بدعة بالكسر الحدث في الدين بعد الإكمال أو ما استحدث بعد النبي ﷺ من الأهواء والأعمال .
بدعت "با" کے کسرہ کے ساتھ : ایسی چیز جو تکمیل دین کے بعد ایجاد کی جائے , یا وہ چیز جو رسول اللہ ﷺ کے بعد خواہشات واعمال کی صورت میں پیدا کی جائے ۔
بدعت کی اصطلاحی تعریف :
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
" وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ "
[ سنن نسائي كـتاب صلاة العيدين باب كيف الخطبة (1578)]
اور کاموں میں سے بد ترین کام اس (اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی شریعت )میں نو ایجاد شدہ کام ہیں , اور ہر (ایسا )نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے ۔
بدعت کی مذمت
اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا ہے :
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (القصص:50)
اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو اللہ تعالى کی (نازل کردہ شرعی)ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے ۔ یقینا اللہ تعالى ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
" إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ الله وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ "
[ سنن نسائي ـکتاب صلاة العيدين باب كيف الخطبة (1578)]
یقینا سب سے سچی بات کتاب اللہ ہے, اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے , اور کاموں میں سے بد ترین کام اس (اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی شریعت )میں نو ایجاد شدہ کام ہیں , اور ہر (ایسا )نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں (لے جانے والی) ہے ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
"من أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
[صحيح البخاري كتاب الصلح باب إذا اصطلحوا على جور فالصلح مردود (2697)]
جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے وہ چیز مردود ہے ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
" مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ"
[ صحيح مسلم كتاب الأقضية باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور (1718)]
جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے وہ کام مردود ہے ۔
امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب کو رسول اللہ ﷺ نے ایک صحیفہ لکھوایا جس میں مدینہ کے بارہ میں یہ درج تھا :
"مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ "
[صحيح البخاري كتاب الحج باب حرم المدينة (1870)]
جس نے اس(مدینہ) میں کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ تعالى , فرشتوں , اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ۔ اس سے کوئی فرضی یا نفلی عبادت قبول نہیں کی جائے گی ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر نے فرمایا:
"كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة"
(السنة للمروزي، ص ۲۹ ؛ وسنده صحيح)
'ہر بد عت گمراہی ہے چاہے لوگ اسے "حسنہ" ہی کیوں نہ سمجھیں'
بدعت شیخ عبد القادر جیلانی کی نظر میں !
آخر میں ہم شیخ عبد القادر جیلانی کی شہرہ آفاق تصنیف غنية ا لطالبين
( ص۔185-186 مطبوعہ نعمانی آفسٹ پریس دہلی 6، ناشر فرید بک ڈپو جامع مسجد دہلی 6) سے ایک اقتباس نظر قارئین کرتے ہیں :
بدعت: ہوشیار اور دانا مومن کے لیے بہتر ہے کہ آیات اور احادیث کے ظاہری معنوں کے مطابق ان پر عمل کرے اور تابعدار رہے، نئی نئی باتیں نہ نکالے، نہ اپنی طرف سے کمی بیشی یا تاویلیں کرے۔ ایسا نہ ہو بدعت اور گمراہی میں پڑ کر ہلاک ہو جائے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ پیروی کرو بدعت اختیار نہ کرو۔ یہی تمہارے لیے کافی ہے۔ معاذ بن جبل کا ارشاد ہے کہ پوشیدہ باتوں کی ٹوہ لگانے سے بچو اور یہ مت کہو کہ فلاں چیز کیا ہے۔ جب مجاہد کو حضرت معاذ کی اس حدیث کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم کہا کرتے تھے کہ یہ کیا ہے مگر اب ہم ایسا نہیں کریں گے۔
سنت اور جماعت: چنانچہ ہر مومن کو سنت اور جماعت کی پیروی کرنا واجب ہے۔ سنت اس طریقے کو کہتے ہیں جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے اور جماعت اسے کہتے ہیں جس پر چاروں خلفائے کرام نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اتفاق کیا۔ یہ لوگ سیدھی راہ دکھانے والے تھے، کیونکہ انہیں سیدھی راہ دکھائی گئی تھی۔
اہل بدعت: مناسب یہ ہے کہ اہل بدعت کے ساتھ میل جول نہ رکھا جائے نہ ہی اس کے ساتھ بحث میں نہ پڑے نہ انہیں سلام کرے، ہمارے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اہل بدعت کو سلام کہنے والا گویا ان سے دوستی رکھتا ہے کیونکہ آنحضرت نے فرمایا آپس میں سلام کو رواج دو تاکہ تمہارے درمیان محبت بڑھے۔ بدعتیوں کے قریب جانا ان کے ساتھ بیٹھنا نہ چاہیے ۔ نہ ان کی خوشی کے موقع پر انہیں مبارک باد دو۔ نہ ان کے جنازہ میں شرکت کرو۔ اگر کہیں ایسے لوگوں کا ذکر ہوتا ہو تو ان کے بارے میں رحمت کے کلمے بھی نہیں کہنے چاہئیں، بلکہ ان سے دور رہ کر ان سے دشمنی کی جائے۔ یہ دشمنی محض اللہ کے لیے ہو۔ اور اس نیت سے کہ ان کا مذہب جھوٹا ہے۔ ان کی دشمنی سے ہمیں ثواب ملے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے آپ نے فرمایا جو شخص اللہ کے لیے اہل بدعت کو اپنا دشمن جانے اس کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان سے بھر دیتا ہے۔ اور جو شخص انہیں خدا کا دشمن جان کر ملامت کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے امن اور ایمان سے رکھے گا اور جو ایسے لوگوں کو ذلیل کرے اسے بہشت کے سو درجے ملیں گے۔
اس کے برعکس جو شخص بدعتی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملے جو اس کی خوشی کا باعث اور اس شخص نے اس چیز کی حقارت کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔
حضرت ابی مغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے۔ آنحضرت نے فرمایا- اللہ تعالیٰ بدعتیوں کے اعمال قبول نہیں کرتا جب تک وہ بدعت سے باز نہ آجائیں۔ فضیل بن عیاض روایت کرتے ہیں کہ اہل بدعت کے ساتھ دوستی رکھنے والے کے نیک اعمال ضائع کر دیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے دل سے ایمان کا نور نکال لیتا ہے۔ اور جو شخص اہل بدعت سے دشمنی رکھتا ہے اسے اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے۔ خواہ اس کے نیک اعمال تھوڑے ہی ہوں۔
تو کسی بدعتی کو جاتا ہوا دیکھے تو وہ راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ پر چلا جا۔ فضیل بن عیاض کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عینیہ کو یہ کہتے سنا کہ جو شخص بدعتی کے جنازے کے ساتھ جائے جب تک واپس نہ آجائے اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہوتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بدعتی پر لعنت کی ہے۔ فرمایا جو شخص دین میں کوئی نئی بات پیدا کرے یا بدعتی کو اپنے ہاں پناہ دے اس پر اللہ تعالٰی اس کے فرشتوں اور سب انسانوں کی لعنت نازل ہوتی ہے۔ اس کے صرف اور عدل کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔ صرف سے مراد فرض ہے اور عدل سے نفل۔ ابو ایوب سختیانی روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی کو سنت نبوی کے بارے میں اطلاع اور وہ جواب میں یہ کہے کہ اس سنت کو اپنے پاس رکھو اور مجھے صرف یہ بتاؤ کہ قرآن میں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ تو ایسا شخص گمراہ ہے۔
اہل بدعت کی پہچان: اہل بدعت کی بعض نشانیاں ہیں جن سے وہ جانے جا سکتے ہیں۔ وہ حدیث کی تحقیر کرتے ہیں۔ زندیق کی پہچان یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو جھوٹا کہتا ہے۔ فرقہ قدریہ اہلحدیث کومجبرہ کہتے ہیں۔ جہمیہ اہل حدیث کو مشبہہ کہتے ہیں۔ رافضی اہل حدیث کو ناصبہ کہتے ہیں۔ یہ سب وہ اس لیے کہتے ہیں کہ انہیں اہل سنت کے ساتھ دشمنی اور تعصب ہے۔ اہل سنت کا صرف ایک ہی نام ہے یعنی اہل حدیث۔ اس کے سوا کوئی نام نہیں۔ اور بدعتی جو اپنا لقب اہل سنت رکھتے ہیں وہ ان کے نام کے ساتھ لگاؤ نہیں کھاتا۔





