Powered by Blogger.

حکمرانوں کو منبر و محراب سے تنقید و نصیحت کرنا ؟

شئیر کریں


اسلام علیکم :
1. کیا حکمرانوں کو سرعام منبر و محراب سے نصیحت کرنا منع ہے؟ 
2. یا لوگوں کے سامنے حاکم کی خامی بیان کرنا کس حد تک جائز ہے؟




نوٹ: کچھ علماء اسکو خروج کے اندر گردناتے ہیں . مطلب اگر کوئی منبر سے حاکم کی خامی بیان کرے تو وہ ان کے نزدیک خارجی ہے ...!!! 
اورانکا استدلال وہ حدیث ہے کہ حاکم کواگر نصیحت کرنی ہو تو اکیلے میں جا کر کرے.. 
لحاظہ انکے نزدیک سرعام حاکم کی خامیاں بیان کر کے اسے نصیحت کرنا خروج کی طرف پہلا قدم ہے !!! 


3۔ سوال یہ ہے کہ یہ موقف کس حد تک درست ہے؟؟ اس مسئلے کے ضمن میں جائز و نا جائز تمام صورتیں بیان کر دیں؟؟

الجواب:

حکمرانوں کو نصیحت کرنا شرعا ممنوع نہیں ہے ۔ انہیں بھی نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور انہیں نصیحت کرنی چاہیے 
۔ لیکن انکا ادب واحترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ 

بر سر منبر بھی حکمرانوں کو نصیحت کی جاسکتی ہے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ نصیحت کرنے والے کی نیت درست ہو , اور اسکی نصیحت حکمران تک پہنچ پائے اور اس سے بغاوت یا انتشار کا شبہ پیدا نہ ہو ۔
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ حکمران تھے , اور وہ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ اس دوران انہوں نے عورتوں کے لیے حق مہر کی مقدار مقرر فرمائی تو مجمع میں سے ہی ایک عورت نے فورا امیر المؤمنین کو نصحیت کی اور امیر المؤمنین نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا ۔

اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات ہمیں تاریخ اسلامی میں ملتے ہیں ۔ 

اور شریعت اسلامیہ "والنصح لکل مسلم " کہہ کر اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مناسب وقت میں , مناسب انداز سے ہر مسلمان کو نصیحت کی جائے ۔ غرض اصلاح اور نصحیت کی ہو , خیر خواہی کا جذبہ ہو , اور انداز شائستہ ہو ۔
ہاں حکمرانوں پر تنقید کرنا جسکا مقصد صرف حکمران کی خامیاں عوام الناس کو بیان کرنا ہو, تو یہ یقینا غلط ہے ۔ حکمران تو کجا ایک عام آدمی کی خامیاں بھی اس انداز میں بیان کرنا منع ہے ۔

آج کل ہمارے ملک میں چونکہ جمہوری نظام حکومت ہے , تو اس نظام حکومت میں بسا اوقات حکومت خود ہی اپنے خلاف مظاہرے کرواتی اور بیانات دلواتی ہے , تاکہ غیر ملکی طاقتوں کے سامنے اپنی معذوری کا اظہار کر سکے ۔ 
اور اسی طرح جمہوری حکومت عوام الناس کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے مطالبات تسلیم کروانے کے لیے احتجاجی مظاہرے کریں , ریلیاں نکالیں , اور جلسے و جلوس بپا کریں ۔

یہ جمہوری حکومت کے لیے لازم ہوتا ہے ۔

تو اس صورت میں بالخصوص اول الذکر صورت میں برسرمنبر تنقید حکمران کی اپنی ضرورت ہوتی ہے , سو اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ کیونکہ اس طریقہ کار سے حکمران کچھ مفاسد کو ختم کرنا اور مصالح کو حاصل کرنا چاہتے ہوتے ہیں ۔

یاد رہے کہ کچھ لوگ عرب علماء کے ایسے فتاوى نقل کرتے ہیں جن میں حکمرانوں کو بر سر منبر نصیحت کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ تو وہ بالکل درست ہیں , کیونکہ انکے ہاں بادشاہی نظام حکومت ہے جوکہ نظام خلافت سے انتہائی قریب تر ہوتا ہے ۔ لیکن ان فتاوى کو پاکستان اور اسی طرح دیگر جمہوری ملکوں میں نافذ کرنا ظلم ہے , کیونکہ جمہوری نظام حکومت میں ایسے اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہوتے ہیں بلکہ حکمرانوں کی اپنی ضرورت ہوتے ہیں ۔

اس ضمن میں ایک واقعہ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں :

ایک مرتبہ پاکستان کی ایک معروف مذہبی جماعت کے بنیادی رہنما سے تکفیر وخروج کے مسئلہ پر میری گفتگو ہوئی , تو اس دوران میں نے ان سے کہا کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور ریلیاں اور جلسے وجلوس ہی در اصل خروج یا بغاوت کا نقطہ آغاز ہوتے ہیں ! ۔ تو انہوں نے میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا : لیکن اگر حکومت خود کہے کہ تم ایسا کام کرو , تو کیا پھر بھی یہ نا جائز ہوں گے ؟ اور انہوں نے اس ثبوت بھی دیے کہ حکومت خود مطالبہ کرتی ہے کہ ایسا کام کیا جائے تاکہ ہم عالمی ڈیسک پر بڑے بڑے عالمی جگو کے سامنے یہ عذر پیش کرسکیں کہ آپ کا ایجنڈا ہم تو نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری عوام نہیں مانتی ۔ اور یہ انکے ہاں بھی معقول عذر بن جاتا ہے ۔

سو اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جمہوری نظام حکومت اور بادشاہی نظام حکومت یا خلافت وامارت کے مابین کتنا فرق ہے ۔ اور انکی ضروریات بھی الگ الگ ہیں ۔ لہذا ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا درست نہیں ۔

لہذا عرب اہل علم کے فتاوى انکے معروضی حالات کے مطابق بالکل درست ہیں کہ وہ مطلق طور پر ایسے اقدامات کو ناجائز کہتے ہیں ۔

اور چونکہ ہمارے معروضی حالات ان سے مختلف ہیں لہذا یہاں اس مسئلہ کی نوعیت بھی مختلف ہے کہ بعض حالات میں ایسے اقدامات درست نہیں جبکہ بعض حالات میں درست ہیں ۔

سائل کا دوسرا سوال

جزاک الله شیخ ، کیا علماء سلف میں سے کسی نے ایسا کیا ہو کہ کسی حاکم کو سر عام نصیحت یا تنقید کی ہو ؟؟؟ تا کہ بات مزید پختہ ہو جائے ..!!!


الجواب:

اسکی ایک مثال تو میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے ذکر کر چکا ہوں ۔ 
اسکے سوا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کی مثالیں بھی نہایت واضح ہیں ۔ کہ انہوں نے کلمہ حق ترک نہیں کیا اور حکمران سمیت غلط نظریہ کے حامل تمام تر لوگوں کو للکارتے رہے اور حق پر قائم رہے ۔
تاریخ اسلام میں اسکی بہت سی مثالیں موجود ہیں شروع سے لے کر اب تک کبار اہل علم ایسا کرتے چلے آئے ہیں ۔ 
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی سعودی حکومت پر امریکیوں کے حوالہ سے کڑی تنقید فرمائی تھی اسکی ایک مثال یہ سن لیں :


جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ حکمرانوں کو بھی نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے , لہذا انہیں بھی نصیحت کرنا لازم ہے ۔ بر سر منبر بھی انہیں نصیحت کی جاسکتی ہے لیکن آداب کو ملحوظ رکھ کر ۔
سرنامہ