Powered by Blogger.

کیا ایک مکھی کا چڑھاوا والی حدیث ضیف ہے؟

شئیر کریں





السلام علیکم،


ایک مکھی کا چڑھاوا والی حدیث ضعیف ہے؟


1- اس حدیث کا کیا حکم ہے؟

طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

(دَخَلَ الْجَنَّةَ رَجُلٌ فِي ذُبَابٍ، وَدَخَلَ النَّارَ رَجُلٌ فِي ذُبَابٍ قَالُوا: وَكَيْفَ ذلِكَ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ: «مَرَّ رَجُلاَنِ عَلى قَوْمٍ لَّهُمْ صَنَمٌ لاَيَجُوزُهُ أَحَدٌ حَتَّى يُقَرِّبَ لَهُ شَيْئاً، فَقَالُوا لأَحَدِهِمَا قَرِّبْ قَالَ: لَيْسَ عِنْدِي شَيْءٌ أُقَرِّبُ قَالُوا لَهُ: قَرِّبْ وَلَوْ ذُبَاباً، فَقَرَّبَ ذُبَاباً، فَخَلَّوْا سَبِيلَهُ، فَدَخَلَ النَّارَ، وَقَالُوا لِلآخَر: قَرِّبْ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لأُقَرِّبَ لأَحَدٍ شَيْئاً دُونَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَضَرَبُوا عُنُقَهُ فَدَخَلَ الْجَنَّةَ)(اخرجہ احمد فی کتاب الزھد و ابونعیم فی الحلیۃ :1 / 203 کلاھما موقوفا علی سلمان الفارسی)

“ایک شخص ایک مکھی کی وجہ سے جنت میں گیا اور ایک شخص ایک مکھی ہی کی وجہ سے جہنم میں جا پہنچا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: “دوآدمیوں کا ایک قوم پر گزر ہوا ۔ جس کا ایک بت تھا وہ کسی کو وہاں سے چڑھاوا چڑھائے بغیر گزرنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ان لوگوں نے ان میں سے ایک سے کہا : چڑھاوا چڑھاؤ۔ اس نے کہا : میرے پاس چڑھاوے کے لیے کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا: تمہیں یہ کام ضرور کرنا ہو گا۔ خواہ ایک مکھی ہی چڑھاؤ۔ اس نے ایک مکھی کا چڑھاوا چڑھادیا۔ ان لوگوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا اور اسے آگے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ اس مکھی کے سبب جہنم میں جا پہنچا۔ انہوں نے دوسرے سے کہا: تم بھی کوئی چڑھاوا چڑھاؤ تو اس نے کہا: میں تو اللہ تعالی کے سوا کسی کے واسطے کوئی چڑھاوا نہیں چڑھا سکتا۔ انہوں نے اسے قتل کردیا۔ اور وہ سیدھا جنت میں جا پہنچا۔


2- کیا یہی حدیث ابن ابی شیبہ، شعب الایمان للبیھقی 7093 میں بھی ہے؟ اور اس حدیث کا حکم کیا ہے؟


جزاک اللہ خیرا



الجواب:





1۔ یہ روایت ضعیف ہے ۔

۲۔ ابن أبی شیبۃ ج ۶ ص ۴۷۳
33038 - حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مُخَارِقِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: «دَخَلَ رَجُلٌ الْجَنَّةَ فِي ذُبَابٍ وَدَخَلَ رَجُلٌ النَّارَ، مَرَّ رَجُلَانِ عَلَى قَوْمٍ قَدْ عَكَفُوا عَلَى صَنَمٍ لَهُمْ» وَقَالُوا: لَا يَمُرُّ عَلَيْنَا الْيَوْمَ أَحَدٌ إِلَّا قَدَّمَ شَيْئًا، فَقَالُوا لِأَحَدِهِمَا: قَدِّمْ شَيْئًا، فَأَبَى فَقُتِلَ، وَقَالُوا لِلْآخَرِ: قَدِّمْ شَيْئًا، فَقَالُوا: قَدِّمْ وَلَوْ ذُبَابًا، فَقَالَ: وَأَيْشٍ ذُبَابٌ، فَقَدَّمَ ذُبَابًا فَدَخَلَ النَّارَ، فَقَالَ سَلْمَانُ: «فَهَذَا دَخَلَ الْجَنَّةَ فِي ذُبَابٍ، وَدَخَلَ هَذَا النَّارَ فِي ذُبَابٍ»


شعب الإیمان ج ۹ ص ۴۵۷
6962 - أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، نا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، نا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، نا مُحَاضِرُ بْنُ الْوَزَعِ، نا الْأَعْمَشُ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ شِبْلٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: قَالَ سَلْمَانُ: " دَخَلَ رَجُلٌ الْجَنَّةَ فِي ذُبَابٍ، وَدَخَلَ رَجُلٌ النَّارَ فِي ذُبَابٍ "، قَالُوا: وَمَا الذُّبَابُ؟، فَرَأَى ذُبَابًا عَلَى ثَوْبِ إِنْسَانٍ، فَقَالَ: " هَذَا الذُّبَابُ "، قَالُوا: وَكَيْفَ ذَاكَ؟، قَالَ: " مَرَّ رَجُلَانِ مُسْلِمَانِ عَلَى قَوْمٍ يَعْكِفُونَ عَلَى صَنَمٍ لَهُمْ، فَقَالُوا لَهُمَا: قَرِّبَا لِصَنَمِنَا قُرْبَانًا قَالَا: لَا نُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا، قَالُوا: قَرِّبَا مَا شِئْتُمَا وَلَوْ ذُبَابًا، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا تَرَى؟، قَالَ أَحَدُهُمَا: لَا نُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا، فَقُتِلَ فَدَخَلَ الْجَنَّةَ، فَقَالَ الْآخَرُ: بِيَدِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَأَخَذَ ذُبَابًا فَأَلْقَاهُ عَلَى الصَّنَمِ فَدَخَلَ النَّارَ "

سرنامہ