Powered by Blogger.

منھج السلف سے کیا مراد ہے؟

شئیر کریں

سلف سے کیا مراد ہے اور انمیں کون کونسے لوگ اتے ہیں؟

منھج السلف سے کیا مراد ہے؟

اگر منھج السلف سے مراد پہلے تین جنریشن ہے تو انمیں بعض یا کچھ مسائل میں اختلاف رہا (علی سبیل المثال آخری تین صورتیں قران کا حصہ ہے یا نہیں یہ اور بات ہے کے وہ متشدد نہیں تھے

 (جیسے امام کی قیادت میں حالت) تو اب عام ادمی انکی اتباع کیسے کریگا؟

 کیا منھج السلف سے مراد (اصحاب السلف) کے وہ اقوال، اعمال مرادہیں جو مقید ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وصلم کی ثابت شدہ اقوال، اعمال اور تقریرات سے؟

 قران میں سبیل المومنین کی اتباع کا جو حکم ہے وہ متلق ہے یا مقیید؟ قران و حدیث میں پہلے رسول کی اطاعت پھر سبیل المومنین، ما انا علیہ واصحابی ایا ہے تو یہ دونوں ایک ہی ہے یا ایک متلق اور دوسرا مقیید ہے؟

 آپکے مدلل علمی جواب کا انتظار رہیگا، جزاک اللہ خیرا


الجواب:

سلف سے کیا مراد ہے اور انمیں کون کونسے لوگ اتے ہیں؟


سلف سے مراد گزشتہ لوگ ‘ اور لغۃ تو اس میں وہ تمام تر افراد شامل ہیں جو آپ سے پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔

 یعنی وہ سب آپکے لیے سلف ہیں ۔ یا یوں کہہ لیں جو آپ سے پہلےوفات پأگئے ہیں وہ سب سلف ہیں ۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے اہل قبور کے لیے دعاء میں فرمایا " أنتم سلفنا ونحن بالاثر " اور اصطلاح میں عموما خیر القرون کے لوگوں کو سلف کہا جاتا ہے ۔

 اور انکے لیے متقدمین سلف کا لفظ بھی بولتے ہیں ۔ اور بعض لوگوں کے ہاں چوتھی بلکہ بعض کے ہاں پانچویں صدی ہجری تک کے لوگ سلف ہیں ۔ اور بعض کی اصطلاح میں تو پندرھویں صدی ہجری کے اوائل میں وفات پانے والے لوگ بھی سلف میں شمار ہوتے ہیں ۔ الغرض سلف کی اصطلاح ایک ایسی اصطلاح کہ جس پر امت متفق نہیں ہوسکی اور نہ ہی ہوسکتی ہے ۔ اور پھر دلچسپ یہ کہ ایک خاص زمانہ میں پائے جانے والے بعض افراد کو ایک گروہ سلف مانتا ہے تو وہی گروہ اسی دور کے بعض دیگر افراد کو سلف سے خارج قرار دیتا ہے ۔ یعنی سلف کے تعین اور انکے دور کے تعین کے لیے ہر کسی کا پیمانہ جدا جدا ہے ۔ رفیق طاھر آف لائن ہے یہ اقتباس دیں

منھج السلف سے کیا مراد ہے؟


منہج سلف سے مراد سلف کا طریقہ کار ہے ۔ جسے وہ کسی بھی میدان میں اپناتے رہے ہیں ۔
مثلا حدیث کی صحت وسقم پرکھنے کے لیے ‘مسائل کے استنباط کے لیے ‘نظام حکومت کو چلانے کے لیے .....الخ

 اور عام طور پر منہج سلف کا لفظ جب بولا جاتا ہے تو اس سے سلف کا کتاب وسنت سے مسائل استنباط کرنے کا طریقہ کا ر مراد ہوتا ہے ۔ جسے اصول فقہ بھی کہا جاتا ہے ۔ اور بسا اوقات تریبت ‘ تعلیم وغیرہ کے میدان میں بھی سلف کے طریقہ کار کو منہج سلف سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

اگر منھج السلف سے مراد پہلے تین جنریشن ہے تو انمیں بعض یا کچھ مسائل میں اختلاف رہا (علی سبیل المثال آخری تین صورتیں قران کا حصہ ہے یا نہیں یہ اور بات ہے کے وہ متشدد نہیں تھے (جیسے امام کی قیادت میں حالت( تو اب عام ادمی انکی اتباع کیسے کریگا؟

ہل علم جب بھی بات کرتے ہیں تو منہج سلف کو اپنانے کی بات کرتے ہیں ۔ اور منہج اور فہم وموقف وقول وعمل کے مابین فرق ہے ۔ سلف میں سے کسی کا بھی فہم ‘ قول ‘ عمل ‘ اور موقف حجت نہیں ہے ۔ اور نہ ہی سلف میں سے کسی کا منہج و طریقہ کار حجت ہے ۔ حجت تو صرف اور صرف وحی الہی ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم میں محصور ومقصور ہے ۔ لہذا سلف میں کسی بھی شخص کی بات ‘ عمل ‘ موقف ‘ منہج ‘ یا طریقہ کار پر کتاب وسنت کی دلیل موجود ہوگی تو اسے قبول کیا جائے گا ۔ اور اگر اس پر وحی الہی سے کوئی دلیل نہ ہو گی تو اسے رد کر دیا جائے گا ۔ لہذا عام آدمی پر لازم ہے کہ وہ دلیل کی اتباع کرے ۔
 اختلاف سلف میں ہو یا خلف میں اسکے حل کا طریقہ کار اللہ تعالى نے بتایا ہے : 


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ 

الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (النساء :59 )


کیا منھج السلف سے مراد (اصحاب السلف)کے وہ اقوال، اعمال مرادہیں جو مقید ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وصلم کی 
ثابت شدہ اقوال، اعمال اور تقریرات سے؟


منہج سلف سے مراد سلف کے اقوال واعمال نہیں بلکہ سلف کے اصول اور طریقہ کار ہے جسے انہوں نے مختلف میدانوں مثلا : دعوت ‘ جہاد ‘ تعلیم ‘ تربیت ‘ اجتہاد وغیرہ میں اپنائے رکھا ۔

قران میں سبیل المومنین کی اتباع کا جو حکم ہے وہ متلق ہے یا مقیید؟

قرآن میں سبیل المؤمنین کی اتباع کا حکم نہیں ہے ۔ 

ہاں یہ ضرور ہے کہ رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور غیر مؤمنین کے راستہ کو اپنانے پر وعید ہے ۔ اور اسی سے ہی اہل علم یہ مسئلہ نکالتے ہیں کہ چونکہ غیرمؤمنین کے راستہ کو اپنانے پر وعید ہے لہذا مؤمنین کا راستہ اپنانا واجب ہوا ۔ اور سبیل المؤمنین موافقت رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم سے مقید ہے ۔ یعنی مؤمنوں کا ایسا طریقہ کار اور راستہ جو رسول کے موافق ہو اسے اپنانا چاہیے ۔ البتہ بعض مؤمنین کا وہ راستہ جو رسول کے موافق نہ ہو اس پر چلنا درست نہیں ۔ 

قران و حدیث میں پہلے رسول کی اطاعت پھر سبیل المومنین، ما انا علیہ واصحابی ایا ہے تو یہ دونوں ایک ہی ہے یا ایک متلق اور دوسرا مقیید ہے؟

اطاعت رسول اور اتباع سبیل المؤمنین در حقیقت ایک ہی چیز ہے ۔

 اسی طرح ما أنا علیہ وأصحابی ایک ہی چیز ہے ۔

ان دونوں کے الگ الگ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ۔ یا یوں کہہ لیں کہ اتباع سبیل المومنین ‘ اتباع رسول یا موافقت رسول سے مقید ہے ۔ جسطرح کہ اولی الامر کی اطاعت اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت سے مقید ہے ۔ 

خوب سمجھ لیں ۔ 
سرنامہ