الجواب:
ہر مسلمان کسی نا کسی کی تکفیر ضرور کرتا ہے ۔ محض کسی کو کافر قرار دے دینے سے کوئی تکفیری نہیں بن جاتا ۔
جب ہم کسی کے لیے لفظ "تکفیری" یا "فتنہء تکفیر" استعمال کرتے ہیں تو اس وقت تکفیر مطلق کی بات عموما نہیں ہوتی بلکہ یہ الفاظ تکفیر معین کے حوالے سے بولے جاتے ہیں یا پھر کبھی کبھار تکفیر مطلق سے متعلق بھی ہوتے ہیں ۔ عموما ان سے مراد تکفیر معین ہی ہوتی ہے ۔ یعنی ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کی معینا تکفیر کرے جبکہ اس نے کوئی کفریہ کام بھی نہ کیا ہو یا اگر کفریہ کام کیا ہو تو تکفیر معین کے اصول وقوانین کو ملحوظ رکھے بغیر اور انہیں اپلائی کیے بغیر وہ اس معین شخص کو کافر قرار دےدے تو اس تکفیر کرنے والے کو تکفیری یا فتنہء تکفیر میں مبتلاء قرار دیا جاتا ہے ۔ ہاں اگر اس شخص پر تکفیر معین کے اصول وقوانین کا اپلائی کرکے اسکی معینا تکفیر کی جائے تو ایسا کرنے والا تکفیری نہیں کہلائے گا ۔ اور جب کبھی اس سے مراد تکفیر مطلق ہوتی ہے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ کسی ایسے کام کو کفریہ کام سر انجام دے کر مطلقا تکفیر کی جارہی ہے جسکا کفر ہونا کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے ! خوب سمجھ لیں۔





