آج کل آل تقلید کی جانب سے اہل السنہ والجماعہ کے نامور لوگوں کو طاغوت یا طاغوت کا پجاری قرار دینے کی سعی لا حاصل کی جا رہی ہے ۔ ہم نے سوچا کہ اس ضمن میں موجود حقائق سے پردہ چاک کر ہی دیا جائے , تاکہ حق وباطل واضح ہو سکے ۔ لیہلک من ہلک عن بینۃ ویحیى من حی عن بینۃ۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ ہمارے نزدیک طاغوت انتہائی قبیح قسم کا کافر ہوتا ہے ۔ اور ہم علمائے دیوبند کی معین تکفیر نہیں کرتے ۔ لیکن جن اصولوں کو اپنا کر آل تقلید نے اہل الحدیث پر الزامات کی بوچھاڑ کر رکھی ہے اور میدان تکفیر گرم کر رکھا ہے انہی اصولوں کی روشنی میں علمائے دیوبند کا طاغوت ہونا اور طاغوت کا پجاری ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ یعنی
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات انکی
انہی کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات انکی 
والا معاملہ ہے ۔ وگرنہ ہم ایسا کہنے اور کرنے والے نہ تھے , اور اگر اب کچھ ایسا کہہ رہے ہیں تو اس لیے کہ مجبور ہیں ہم , لہذا ہم یہی کہیں گے کہ
نہ تم صدمے ہمیں دیتے , نہ یوں فریاد ہم کرتے 
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں 
چونکہ آل دیوبند کا یہ ٹولہء تکفیر شیخ الاسلام محمد بن عبد ا لوہاب , امام ابن تیمیہ اور دیگر سلف کی عبارات پیش کرکے انہیں غلط جگہوں پر فٹ کرتا ہے لہذا ہم نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ ان شیوخ الاسلام کا صحیح موقف بھی واضح ہو جائے اور انکی عبارات کا صحیح مصداق بھی سامنے آجائے ۔
طاغوت کی تعریف :
سیدناجابر عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
طاغوت وہ (کاہن)ہوتے ہیں جن کی طرف لوگ فیصلے لےکر جاتےہیں ،جہینہ قبیلے میں ایک طاغوت تھا،اسلم قبیلے میں ایک طاغوت تھا،اسی طرح ہر قبیلے میں ایک طاغوت ہوتا ہے وہ کاہن ہیں جن پر شیاطین اترتے ہیں۔
(صحیح بخاری،کتاب التفسیر:4583)
معلوم ہوا طاغوت سے مراد جادوگر کاہین ہیں۔اور ان کی خاص نشانی علم غیب کا دعویٰ کرنا ہوتی ہے۔کیونکہ جادو ہے یہ علم غیب کی باتیں بیان کرنے کا نام۔جو شیطان القاء کرتے ہیں۔معلوم ہوا علم غیب کا دعویٰ کرنے والا بھی طاغوت ہے۔اور اس کی طرف اپنے فیصلے لے کر جانے والا اس کی پیروی کرنے والا طاغوت کا پجاری ہے۔
امام ابن قیمرحمۃاللہ طاغوت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الطاغوت کل ما تجاوز بہ العبد حدہ من معبود او متبوع او مطاع فطاغوت کل قوم من یتحاکمون الیہ غیر اللہ ورسولہ او یعبدونہ من دون اللہ او یتبعونہ علی غیر بصیرۃ من اللہ او یطیعونہ فیما لایعلمون انہ طاعۃ للہ
(اعلام الموقعین ص44 مطبوعہ دار طیبہ ریاض،مترجم ص52 جلد1 مطبع مکتبہ قدوسیہ)
’’ طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی حد سے تجاوز کر جائے خواہ عبادت میں یا اتباع میں یا اطاعت میں ہر قوم کا طاغوت وہی ہے جس کی طرف وہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی بجائے فیصلہ کے لئے رجوع کرتے ہیں یا اللہ کے سوا اس کی پیروی کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی ٰ کی اطاعت ہے ۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی عبادت کی جارہی ہواور وہ اس پر راضی ہو ،وہ طاغوت ہے ۔
[فتاویٰ ابن تیمیہ ، ص:200،ج:28]
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
طاغوت ایک عام لفظ ہے ،ہر وہ چیز یا ذات جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے اور وہ اس عبادت پر خوش اور راضی بھی ہو خواہ وہ معبود ہو یا متبوع یا مطاع ،وہ طاغوت کے زمرے میں آتا ہے ۔
طاغوت کی اقسام:
آیات قرآنیہ اور سلف صالحین کے اقوال سے معلوم ہوا کہ طاغوت سے مراد شیطان،جادوگر،کاہین،آئمہ کفر(جیسے کعب بن اشرف)وغیرہ ہیں شیخ الاسلام امام ابن قیم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں طواغیت تو بہت سارے ہیں جن میں سے بڑے بڑے پانچ ہیں۔
۱-ابلیس(لعنت اللہ علیہ)
۲-جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے اور وہ اس پر راضی بھی ہو(کما قال ابن تیمیہ فی مجموع الفتاویٰ)
۳-جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔
۴-جو غیب دانی کا(علم غیب )کا دعویٰ کرتا ہے۔
۵-جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرتا ہو۔
کون لوگ ہیں جو ان بیان کردہ طواغیت کے پچاری ہیں؟
اب ہم طاغوت کی بیان کردہ ان پانچ اقسام کا جائزہ لیتے ہیں کہ کون ان میں سے کونسی قسم کے طاغوت کی پچاری ہیں؟
۱۔ابلیس شیطان :۔
یہ ایسا طاغوت ہے جس کی عبادت کوئی بھی کلمہ پڑھنے والا نہیں کرتا۔سب ہی اپنی زبان اور دل سے اس کا انکار کرتے ہیں۔
۲۔جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے اور وہ اس پر راضی بھی ہو:
آئے دیکھتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے اور وہ اس پر خوش بھی ہوتے ہیں۔
دین تصور اور خانقاہی نطام میں متعدد ایسے بدنصیب گمراہ لوگ گزرے ہیں ۔جونہ صرف اپنی خدائی کے دعویدار بنے بلکہ لوگوں کو بھی ’’الہ اور خدا‘‘ بننے کے گر بتاتے رہے جس کی ایک بڑی مثال بہت بڑا گمراہ صوفی منصور حلاج ہے جس کو اسی نعرہ [انا الحق]’’میں اللہ ہوں‘‘ کے جرم میں پھانسی دی گئی۔یہاں ایسے گمراہ صوفیوں کے معتقدین کی ایک تاویل بھی ملاحظہ فرمائیں :
ایک صوفی حکیم سے پوچھا گیا انا ربکم الاعلیٰ اور انا الحق کہنے میں کیا فرق ہے ؟ فرمایا :ایک بزرگ نے حق تعالیٰ سے عرض کیا اس کی کیا وجہ ہے کہ فرعون نے انا ربکم الاعلیٰ کہا تو مردود ہوا اور منصور نے ایسا ہی کہاتو مقبول ہوا جواب دیا گیا کہ فرعون نے ہمارے مٹانے کے لئے کہا اور منصور نے اپنے مٹانےکے لئے کہا۔
[الکلام الحسن صفحہ نمبر:198، جلد:2]
بلکہ صوفیت کا ایک بنیادی عقیدہ ’’وحدۃ الوجود ‘‘ہے ۔
جس کے بارے میں معروف صوفی و پیر طریقت امداد اللہ مہاجر مکی لکھتا ہے :
’’مسئلہ وحدۃ الوجود حق و صحیح ہے اس مسئلے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔
[شمائم امدادیہ صفحہ نمبر :32،کلیات امدادیہ صفحہ نمبر :218]
وحدت الوجود کی تعریف :
(صوفیوں کی اصطلاح )تمام موجودات کو صرف اعتباری اور فرضی ماننااصل میں تمام چیزیں وجود خدا ہی ہیں جیسا کہ پانی کہ وہی بلبلہ وہی لہر وہی سمندر ،وحدہ لاشریک وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔
[جامع نسیم اللغات صفحہ نمبر :1215]
یعنی معلوم ہوا وحدۃ الوجود کے عقیدے میں خالق ومخلوق ،عابدومعبود کا فرق مٹ جاتا ہے بندہ اور خدا ایک ہی وجود قرار پاتے ہیں اسی طرح ایک وجودی (وحدۃ الوجود کا قائل) لکھتا ہے :
یا اللہ معاف فرماناکہ حضرت کے ارشادسے تحریر ہوا ہے جھوٹا ہوں کچھ نہیں ہوں تیرا ہی ظل ہے تیرا ہی وجود ہے میں کیا ہوں کچھ نہیں ہوں اور جو میں ہوں وہ تو ہے اور میں اور تو خود شرک در شرک ہے ۔(استغفر اللہ.....)
[مکاتیب رشیدیہ ،فضائل صدقات،حصہ دوم صفحہ نمبر :556]
اسی طرح ایک اور بہت بڑے صوفی شیخ ضامن علی جلال آبادی نے ایک زانیہ عورت سے کہا :
بی بی شرماتی کیوں ہو؟کرنے والا کون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے ۔(العیاذباللہ )
[تذکرۃ الرشید ص:242،ج:2]
یہ حضرت جلال آبادی صاحب کے بارے ان کے معتقدین کا دعویٰ ہے کہ وہ تو توحید ہی میں غرق تھے۔[ایضاً]
صوفیوں کے شیخ المشائخ امداد اللہ سے کسی نے کہا:
’’ آپ کے اس مضمون سے معلوم ہوا عابد ومعبود میں فرق کرنا شرک ہے ‘‘تو حاجی امداد اللہ نے جواب دیا :کوئی شک نہیں ہے کہ فقیر نے یہ سب کچھ ضیاءالقلوب میں لکھا ہے ۔
[شمائم امدادیہ ،ص:34]
خدا بننے کاگرُ:
معروف صوفی امداد اللہ مہاجر مکی لوگوں کو ’’اللہ ‘‘بننے کا طریقہ بتاتے ہوئے لکھتا ہے :
اور اس کے بعد اس کو ہُوہُو کے ذکر میں اس قدر منہمک ہوجانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ ) ہوجائے اور فنا درفنا کے یہی معنی ہیں۔ (نعوذباللہ من ذلک)
[کلیات امدادیہ ص:18،مطبوعہ دارالاشاعت کراچی]
نوٹ: بریکٹ میں مذکور لفظ (اللہ )خود حاجی امداد اللہ صاحب کا ہے ۔
اسی طرح صوفیاءکے عقائد میں فنافی الشیخ ،فنافی الرسول اور فنا فی اللہ بھی توحید الہی کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ خود مرتبہ خدائی پر فائز ہونے کے دعویٰ کے مترادف ہے اسی طرح وحدت الشہود اور حلول کہ ہر چیز اللہ ہے یا ہر چیز میں اللہ ہے ۔
تصور شیخ یا غیر اللہ کی عبادت :
تصور شیخ سے مراد یہ ہے کہ مرشد کہتاہے میں نے تمہیں اللہ تک پہنچانا ہے اور چونکہ تم نے اللہ کو دیکھا نہیں مرشد کے ذریعے ہی اللہ تک پہنچ سکتے ہو اس لئے تم جو ذکر کرو گے میرا تصور تمہارے سامنے ہو گا دن ہو یا رات آنکھیں بند ہو یا کھلی تمہاری آنکھیں کھلی بھی ہوں تو ایسا نقش پکانا ہے کہ ہر جگہ مرشد نظر آئے اسی قسم کا ایک مرید کہتاہے :
~کیا غضب کیا تیری یاد نے مجھے آستایانماز میں
میرے وہ سجدےبھی قضاء ہوئے جو ادا ہوئے تھے نماز میں
اب حال یہ ہو جاتاہے نماز بھی پڑھتا ہوں تو مرشد کی تصویر سامنے ہے اور پھر جب وہ تصویر ہر وقت سامنے رہتی ہے تو اس کی ایسی محبت دل میں بیٹھتی ہے جو صرف اللہ کا حق ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿ومن الناس من یتخذ من دون اللّٰہ اندادا یحبونھم کحب اللّٰہ والذین امنوا اشد حباللّٰہ﴾
(البقرہ:165)
’’ بعض لوگ اللہ کے علاوہ ایسے شریک بناتے ہیں کہ ان سے اللہ کی محبت جیسی محبت کرتے ہیں ،حالانکہ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں ‘‘
انتہائی درجے کی محبت جس کے ساتھ انتہائی عاجزی ہو یہی تو عبادت ہے اور ہر وقت کسی کی یاد دل میں ہو توصرف اللہ کا مقام ہے اگر یہ کسی بندے کو دے دیا تو اللہ کامقام چھین کرمخلوق کو دے دیا ہمارے برصغیر پاک و ہند کے صوفیانہ مسلمانوں کی اکثریت ایسے ہی شرک میں گرفتار ہے ۔
محترم قارئین ان دلائل سے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ علماء دیوبند میں بڑے بڑے طاغوت پیدا ہوئے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔اور ان کی عبادت کرنے والے ،اور ان کا دفاع کرنے والےحضرات کی تعداد کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
۳-جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔
ہمارے قرب وجوار میں ایسے بہت سے نام نہاد اسلام کی دعوے دار ملیں گے ۔جو بذات خود طاغوت ہوں گے اور ان کے پیروکار آج بھی ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور ان کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔
آئےدیکھتے ہیں علماء دیوبند کے عقائد ایسے ہی ہیں یا اس سے کچھ مختلف؟
فنا فی الرسول:
یہ تصور شیخ کے بعد غیر اللہ کی عبادت کا دوسرا درجہ ہے جس کی وضاحت کے لئے ایک اقتباس پیش خدمت ہے ۔
امیر شاہ خان صاحب لکھتے ہیں :
پھر اور جوش آیا فرمایا ’’کہہ دوں ؟‘‘عرض کیا گیا ،حضرت ضرور فرمائیے۔ فرمایا کہ اتنے سال حضرت ﷺ میرے قلب میں رہے اور میں نے کوئی بات آپ کو پوچھے بغیر نہیں کی ۔
[ارواح ثلاثہ المعروف حکایۃ اولیاء،ص:265]
کیا اب کوئی شخص رسول اللہ ﷺ سے کوئی بات پوچھ سکتا ہے کیا شرعاًممکن ہے کہ اتنے سال فلاں حضرت کی دل میں رسول اللہ ﷺ رہے اور جو کام کیا رسول اللہ ﷺ سے پوچھ کر کیاواہ سبحان اللہ کیاشان مقام ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بھی براہ راست آپ ﷺ سے ملاقات پر کام آپ ﷺ سے پوچھ کر یہ مقام نہ کسی صحابی کو ملاکہ وہ براہ راست وفات کے بعد نبی کریم ﷺ سے پوچھ کر ہر کام کر لیتے ۔وفات کے بعد سیدہ فاطمہ و ابو بکر صدیق کا ورثہ میں اختلاف ہوا ۔نہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبیﷺ سے پوچھا اور نہ ہی ماں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے۔
اس گمراہی کی اساس و بنیاد یہی شرکیہ عقیدہ ہے کہ پہلے تین سال مرشد کامل کا تصورذہن رکھنا پھر اس کےبعد رسول اللہ ﷺ کا نقش لانا ۔رسول اللہ ﷺ کو انہوں نے نہیں دیکھا جو نقشہ ذہن میں نقش پکڑ چکامرشد کا نقشہ تھا اب شیخ کے کہنے کی دیر تھی وہ نقش رسول اللہ ﷺ کا نقش بن گیا یہی وہ تصوف وطریقت ہے جس میں سب سے پہلے فنافی الشیخ اس کے بعد فنافی الرسول ،اس کے آگے فنافی اللہ کی منزل ہے ۔
الغرض گمراہ صوفیاءاور مشائخ لوگوں سے اپنی عبادت کرواتے ہیں جو کسی صورت بھی کسی مسلمان کے لئے جائز اور روا نہیں ۔انہیں گندے عقائد اور غیر اللہ کی عبادت کی وجہ سے برملا ان کی عبادت کا اعتراف بھی کیا گیا اور ان کے نام کلمے بھی پڑھے اور پڑھائے گئے اور اپنے صوفیاء اور مشائخ نے اس طرح لوگو ں کو اپنی عبادت کی دعوت دی۔ 
مثلاًحضرت حکیم الامت صاحب لکھتے ہیں ،فرمایا :
گنگوہ میں ایک بزرگ تھے جن کا نام صادق تھا وہ مرید کم کرتے تھے ۔دو شخص ان کے پاس آئے انہوں نے ددنوں کاامتحان کیا اور کہا ،کہو’’ لاالٰہ الا اللہ صادق رسول اللہ ‘‘ ایک بھاگ گیا دوسرے نے کہہ دیا: اس کوبیعت کر لیا اور فرمایا تم نے کیا سمجھا اس نے کہا: میں نے آپ کو رسول تو نہیں سمجھا ،تأویل کر لی رسول اللہ مبتدااور صادق خبر مقدم ہے فرمایا:کہ میری بھی یہی مراد تھی ۔
[الکلام الحسن ،ص:47،ج:2،مطبوعہ المکتبہ الاشرفیہ جامعہ اشرفیہ فیروز پور روڈلاہور پاکستان]
ایسے گمراہ کن عقائد و نظریات کو دیکھ کر کسی اہل دل نے کہا:
~ یہ راہزن ہیں جنہیں تم رہبر سمجھتے ہو،
قبا پوشی کے پردے میں جو عیاشی کے رسیا ہوں
میں ایسوں کو رہبرورہنما کہہ دوں یہ مشکل ہے 
اسی وجہ سے ان کے آستانوں ،مزاروں اور خانقاہوں پہ طواف ہونے لگے اور ان کی بندگی کا مہلک دروازہ کھل گیا اور ان کے معتقدین و مریدین نے اعلانیہ اقرار کیا ۔
قارئین کرام دلائل سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ اس قسم کے طاغوت کن کے ہاں پائے جاتے ہیں؟اور ان کے پچاری کون ہیں؟آج بھی ان کے پیروکاروں سے بات کر لیں وہ ان طواغیت کا بالکل بھی رد نہیں کریں گے۔بلکہ ان کا دفاع کرے نظر آئیں گے۔جس سے یہ بات صاف ہو جائے گی کہ طاغوت کے پچاری کون ہیں؟ 
۴-جو غیب دانی کا(علم غیب )کا دعویٰ کرتا ہے۔
جو چیز انسان کے علم ادراک اور حواس سے غائب ہو اور اوجھل ہووہ غیب ہے ۔اور غیب مستقبل ایک حقیقی علم ہے جو اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی اپنے انبیاء علیھم السلام کو کوئی بتا دے تو وہ علم غیب نہیں بلکہ اطلاع علی الغیب ہے جو بذریعہ وحی ہوئی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا * إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا
[الجن:۲۶,۲۷]
لہذا جو شخص غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہے وہ کافر ہے کیوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تکذیب کر تا ہے ,(جھٹلاتا ہے )
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿قل لا يعلم من في السماوات والأرض الغيب إلا الله وما يشعرون أيان يبعثون﴾
[النمل:65]
’’ آپ ﷺ کہہ دیجیے اللہ کےسوا آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھا ئے جائیں گے ۔‘‘
علماء دیوبند اور علم غیب:
کتاب وسنت کے واضح نصوص سے ثابت ہے کہ علم غیب صرف اللہ کے لئے ہے اور بذریعہ وحی انبیاء کو بعض امور پر مطلع کیاجاتا رہا لیکن کائنات میں کوئی غیب نہیں جانتا ،اس کے باوجود یہاں پر اہل طریقت اپنے اکابرو مشائخ کے بارے میں اعلانیہ غیب دانی کے مدعی ہیں ،ان کے بزرگ جانتے ہیں قبر میں مردے کی حالت کیا ہے بارش کب ہوگی ؟نفع نقصان کیا ہوگا ،ارحام میں کیا ہے ؟اصلاب میں کیا ہے ؟حتیٰ کہ اللہ کا خاصہ علیم بذات الصدور (سینے کی باتوں کو جاننے والا )وہ بھی ان بزرگوں کے لئے معمولی معاملہ ہے ،اس حقیقت کی نقاب کشائی کے لئے ایک واقعہ ذکر کیے دیتا ہوں ۔
ایک صاحب لکھتے ہیں :
ایک دن امیر شاہ خان صاحب نے حضرت قدس سرہ سے ایک قصہ بیان کیا کہ میں ایک روز ایک بزرگ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اوران کے پاس ایک نوعمر درویش آئے اور بیٹھ گئے ،وہ بزرگ جن کے پاس میں بیٹھا ہوا تھا اس درویش کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگے بھئ تمہارے قلب میں بڑی اچھی چیز ہے ان بیچاروں نے اپناحال چھپانا چاہا مگر انہوں نے پردہ ہی فاش کر دیا کہنے لگے تمہارے قلب میں ایک عورت کی شبیہ ہے اس کی ناک ایسی ہے اور آنکھیں ایسی ہیں اور بال ایسے ہیں غرض تمام حلیہ بیان کردیا ،اس وقت وہ درویش بہت نادم ہوا اور اقرار کیا کہ بے شک آپ سچ فرماتے ہیں ابتداء جوانی میں مجھے ایک عورت سے عشق ہو گیا،ہر وقت اس کے دھیان میں رہنے سے اسکی شبیہ میرےقلب میں آگئی ہے اب جب کبھی طبیعت بے قرار ہوتی ہے تو آنکھ بند کر کے اس کو دیکھ لیتا ہوں ،کچھ سکون ہوجاتا ہے اور طبیعت ٹھہر جاتی ہے ۔مولوی امیر شاہ خان صاحب یہ قصہ بیان کر کے اس بات کے منتظر رہے کہ حضرت کچھ ارشاد فرمائیں گے مگر امام ربانی نے کچھ بھی جواب نہ دیا سن کر خاموش ہوگئے جب کئی مرتبہ مولوی صاحب نے یہ بات اٹھائی تب حضرت نے ارشاد فرمایا : بھئ یہ کچھ زیادہ غلبہ نہیں کیونکہ ان کو آنکھیں بند کرنے اور قلب کی طرف متوجہ ہونے کی نوبت پہنچتی تھی میرا حضرت حاجی صاحب کے ساتھ برسوں یہ تعلق رہا کہ بغیر آپ کے مشورہ کے میری نشست برخواست نہیں ہوئی حالانکہ حاجی صاحب مکہ میں تھے ۔(یہ ٹیلی فون اور موبائل کا دور نہیں تھا )اور اس کے بعد جناب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہی تعلق برسوں رہاہے یہ فرماکر آپ خاموش ہوگئے ،کچھ نہ فرمایا دیر تک ساکت وسر نگوں رہے مطلب ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ شأنہ کی اجازت کے بغیر نہ حرکت ہوئی نہ سکون ۔
[تذکرۃ الرشید،ص:196،197۔ج:2مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور ]
اسی طرح باطنیوں کے ایک گروہ نے تو ولایت کے لئے معیار ہی علم غیب کو قرار دے دیا ،ایک صوفی حکیم الامت لکھتا ہے ۔
امام شعرانی فرماتے ہیں :
ہم نے اپنے شیخ سید علی الخواص کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارے نزدیک اس وقت تک مرد کامل نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے مرید کی حرکات نسبی کو نہ جان لے یوم میثاق سے لیکر جنت یا دوزخ میں داخل ہونے تک ۔
[جاء الحق ،ص:90،91حصہ اول،نعیمی کتب خانہ اردو بازار لاہور ]
یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ قوم کے ایسے صوفیاء، اکابر و مشائخ جوا تنے بڑے غیب دانی کے دعویدار ہیں :
شرعاً ان کا کیا حکم ہوگا ؟کیا یہ بھی طاغوت کے زمرے میں آئیں گے یا نہیں ؟اگر نہیں تو کیوں ؟ 
اگر یہ طاغوت ہیں تو کس قسم کے ؟
ان کو حق پر سمجھنے والے اور ان کی تصویب کرنے والے لوگوں کا حکم کیا ہوگا ؟
ایسے لوگ یا ان کے معتقدین و مریدین کے ساتھ کیسا سلوک اور برتاؤ روا رکھا جائے ؟
مزید یہاں شیخ محمد بن عبد الوھاب رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کردہ نواقض میں سے نمبر 3 بھی یاد رکھیں۔
من لم یکفر المشرکین أو شک فی کفر ھم أو صحح مذھبھم 
’’جس نے مشرکوں کو کافر نہیں سمجھا یا ان کے کافر ہونے میں شک کیا یا ان کے مذہب کو صحیح سمجھا تووہ شخص کافر ہے ‘‘
کیا یہ قاعدہ و ضابطہ یہاں بھی عموم پر ہوگا یا سلف صالحین کی طرح تکفیر کی جملہ شرائط و موانع کو ملحوظ رکھا جائے گا ؟
۵-جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرتا ہو۔
اس مسئلہ پر تفصیلی بحث پہلے ( سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں )چند بنیادی اصولوں کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ہم خلط مبحث اور اہل باطل کے طریقہ سے بچ کر اہل سنت والجماعت کے صحیح منہج کے مطابق مسئلہ کو سمجھ سکیں ۔
کفر بعض صورتوں میں اعتقادی اور ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں یہ صرف کفر یہ فعل ہوتا ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا اگرچہ اس فعل کےمرتکب کے لئے کتاب وسنت میں کفر یا کافر کا لفظ ہی کیوں نہ بیان ہوا ہو ۔
قارئین کرام طاغوت کی یہ قسم آج ہمارے اردگرد پائی جاتی ہے،اور ان طواغیت کو ماننے والے ہر جگہ نظر آتے ہیں اور انکا دفاع بھی کرتے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ ان طواغیت کے انکار میں کبھی کفر،ارتداد اور قتال کے فتوے ان نام نہاد مجاہدوں کی طرف سے صادر نہیں ہوئے؟بلکہ ان کی چھتری تلے بیٹھ کر امت مسلمہ اور علماء سلف پر زبان درازیاں کرتے ہیں اور اپنے قلم اور تلوار سے ان طواغیت کا انکار کرنے والوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
ان اصولوں کی بنیاد پر ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں جمیع سلف صالحین نے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف فیصلہ کرنے کو عملی یا مجازی کفر قرار دیا ہے یعنی یہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث نہیں بنتا ہے جب تک کہ فیصلہ کرنے والا اس فعل کو حلال اور جائز نہ سمجھتا ہو اوریہی اس درج ذیل آیت کی حقیقی مراد ہے :
﴿ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک ھم الکافرون﴾
(المائدۃ :44)
اب ہم ذیل میں سلف صالحین کے اقوال اور دیگر قرائن کی روشنی میں اس کی وضاحت کرتے ہیں ۔ آیت تحکیم کا سیاق وسباق :
امام ابن جریرطبری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی :310ھ)علمائے کرام کے اقوال بیان کرنے کے بعد بات کو ختم کرتے ہوئے فرماتے ہیں میرے نزدیک ان میں سے راجح ترین قول یہ ہےکہ یہ آیت اہل کتاب کے کافروں کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ اس سے پہلے اور بعد والی آیات میں ان ہی لوگوں کا تذکرہ کیاگیاہے سیاق وسباق کا یہی تقاضا ہے اس سے مراد یہود ونصاریٰ لیے جائیں اگرکوئی اعتراض کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عام بات کی ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا وہ کافر ٹھہرے گا آپ لوگ اس کو بعض لوگوں کےساتھ خاص کیوں کرتے ہیں ؟
جواب یہ دیا جائے گا کہ اس آیت میں عام الفاظ ان لوگوں کے بارے میں ہی استعمال کیے گئے ہیں جو اللہ کے حکم کا انکار کرنے والے تھے اور ہم بھی یہی کہتے ہیں ۔جو آدمی اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرتےہوئے ان کو ترک کرے گا وہ کافر کہلائے گا جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہا ہے کیونکہ وہ لوگ اللہ تعالی ٰ کے حکم کو (جواس نے اپنی کتاب میں نازل کیا )جاننے کے بعد اپنے انکار کی وجہ سے کافر ہوگئے اورانکے انکارکی مثال نبی ﷺ کی نبوت کو جاننے کے بعد انکار کرنے کی طرح ہے ۔
[ تفسیر طبری ،ص:557،ج:4 مطبوعہ دارالحدیث القاھرہ]
آیت تحکیم اور انکا ر یہود کا ثبوت :
یہود کے انکار پر آیت کا سیاق دلالت کررہا ہے ۔یہودیوں نے نبیﷺ کے فیصلے کے بارے کہا :
’’اگر وہ نبی تم کو تمہارے ارادےکے مطابق فیصلے دے دے تو اس کو حاکم تسلیم کر لینا اور اگر کچھ نہ دے تو بچ جانااور حاکم تسلیم نہ کرنا ‘‘
قرآن مجید میں بھی اس قبیح (برے) اصول کا ذکر موجود ہے ،ارشاد بادی تعالیٰ ہے :
﴿یقولون إن أوتیتم ھذا فخذوہ وإن لم تؤتوہ فاحذروہ﴾
( المائدۃ: 41)
’’ اگر تمہیں یہ دیا جائے تو لے لو اور اگر تمہیں یہ نہ دیا جائے تو بچ جاؤ ‘‘
[مزیدتفصیل کےلئےجامع البیان المعروف تفسیر طبری،تفسیر قرطبی،ابن کثیروغیرھم ملاحظہ کریں]
مسئلہ تحکیم از نبی مکرم ﷺ:
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لینقضن عری الاسلام عروۃ عروۃ فکلما انتقضت عروۃ تشبث الناس بالتی تلیھا واولھن نقضاً الحکم واٰخرھن الصلاۃ
[ مسند احمد ۔ص:251،ج:5]
’’ آپ ﷺ نے فرمایا :اسلام ایک ایک کڑی کر کے ٹوٹتا چلا جائے گا جب ایک کڑی ٹوٹ جائےگی تو لوگ دوسری کڑی کو پکڑ لیں گے سب سے پہلے جو کڑی ٹوٹے گی وہ ’’ حکم ‘‘ (فیصلہ ) ہوگا اور آخری ٹوٹنے والی کڑی ’’نماز ‘‘ ہوگی ۔‘‘
اس حدیث میں نبیﷺ نے مثال دے کر اسلام کے دور زوال کو سمجھایا اور سب سے پہلا معاملہ حکم یعنی فیصلہ ختم ہوجانے کے باوجود آپ ﷺ نے اسلام کو باقی قرار دیا جواس بات کی واضح دلیل ہے کہ حکم بغیر ماانزل اللہ ایسا کفر نہیں جو دائرہ اسلام سے خارج کر دے ۔
آیت تحکیم اور سیدنا ابن عباس ؓ:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: یہ وہ کفر نہیں جس کی طرف وہ جارہے ہیں یہ دین سے خارج کر دینے والا کفر نہیں ۔ 
﴿ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک ھم الکافرون﴾
(المائدۃ :44)
یہ کفر دون کفر ہے ‘‘
[المستدرک للحاکم رقم :3219 ،وقال ھذاحدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ ووافقہ الذھبی وصححہ الألبانی ]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے علقمہ اور مسروق رحمھما اللہ نے رشوت کے بارے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : ’’یہ حرام ہے ‘‘ دونوں نے کہا :(رشوت لے کر خلاف شریعت )فیصلہ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ کفر ہےپھر صحابی رسول ﷺ عبد اللہ بن مسعود نے یہ آیت تلاوت کی ۔
﴿ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک ھم الکافرون﴾(المائدۃ :44)
[الابانۃ (من شریعۃ الفرقۃ الناجیۃ ومجانبۃ الفرقۃ المذمومۃ)للشیخ الامام ابی عبدا للہ عبید اللہ بن محمد ابن بطہ العکبری (المتوفی 372ھ)ص:303 ،ج:1،باب ذکر الذنوب التی تصیر بصاحبھا إلی کفر غیر خارج بہ عن الملۃ ]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رشوت لے کر فیصلہ کرنے کو کفر قرار دیا ہے اور یہ کفر مخرج من الملۃ نہیں ہے۔اسی لیے امام ابن بطہ نے اس کو اس باب میں بیان کیا ہے جس میں ان گناہوں کا ذکر ہے جن کے ارتکاب سے آدمی کافر نہیں ہوتا۔
سید التابعین عطاء بن ابی رباح :
وہ فرماتے ہیں:’’ کفر دون کفر وفسق دون فسق وظلم دون ظلم‘‘
[تفسیر طبری ،ص: 554،ج:4 رقم: 12061]
طاؤس تابعی کا فیصلہ :
وہ فرماتے ہیں: ’’یہ وہ کفر نہیں جو دین سے خارج کر دے ‘‘
[تفسیر طبری،ص:554 ،ج:4 ،رقم 12066]
امام اہل السنہ احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ رحمھما اللہ کا فیصلہ :
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ میں فرماتے ہیں سلف صالحین کا یہ قول ہے کہ انسان میں جس طرح ایمان اورنفاق جمع ہوسکتا ہے اسی طرح اس میں کفر اور ایمان بھی جمع ہو سکتا جیسا کہ عبداللہ بن عباس اور ان کے شاگردوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں فرمایا:
﴿ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک ھم الکافرون﴾(المائدۃ :44)
’’جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے ‘‘
انہوں نے ایسا کفر کیا ہے جو دین اسلام سے خارج نہیں کرتاہے اور یہی موقف امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ اہل سنت نے اپنایاہے ۔
[مجموع الفتاویٰ ،ص:312،ج:7]
اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہےکہ حکم بغیرماانزل اللہ عملی اورمجازی کفر ہے اس کفر کا مرتکب علی الاطلاق کافر ومرتد نہیں جبتک کہ اسمیں انکار وجحود یا استحلال وغیرہ نہ پایا جائے اور خوارج نے اس آیت کو فہم سلف سے ہٹ کر مطلقا کفر اکبر پرمحمول کیا اور توحید حاکمیت کانعرہ لگاتے ہوئے ہر اس شخص کو مرتد قرار دے دیا جوحکم بغیر ما انزل ا للہ کا مرتکب ہوا حالانکہ یہ صریحاً ظلم ہے ۔
مسئلہ تحکیم اور تقلیدی مذاہب:
زیر بحث مسئلہ تحکیم میں وہ تقلیدی پہلو بھی انتہائی قابل غور ہے جو مذہبی تقدس کےپردہ میں یہود ونصاریٰ کا شیوہ تھا جسکی مذمت کرتے ہوئے اللہ رب العالمین نے فرمایا :
﴿ ٱتَّخَذُوٓاْ أَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَـٰنَهُمۡ أَرۡبَابً۬ا مِّن دُونِ ٱللَّهِ﴾
(التوبۃ:31)
’’ انہوں نےاپنے مولویوں اور پیروں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا تھا ‘‘
حضرت عدی بن حاتم فرماتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ سونے کی صلیب میرے گلے میں لٹک رہی تھی آپ ﷺ نے فرمایا : عدی اس بت کو اتاردو میں نے رسول اللہ ﷺ کو سورہ التوبہ کی یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا ﴿ ٱتَّخَذُوٓاْ أَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَـٰنَهُمۡ أَرۡبَابً۬ا مِّن دُونِ ٱللَّهِ﴾ تو انہوں نے نبیﷺ سے سوال کیا ہم نے ان کو الٰہ اور معبود نہیں بنایا تھا نبیﷺ نے فرمایا: جب وہ اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کہتے تو تم ان کو حرام نہیں سمجھتے ؟ عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی ٰعنہ نے فرمایا:ایسا ہی کرتے رہے تو آپﷺ نے فرمایا :یہی تو ان کی عبادت ہے ۔ یہی تفسیر سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی منقول ہے۔
[تفسیر ابن کثیر: 348/2،مسند احمد:464/4،ترمذی کتاب التفسیر سورۃ التوبۃ]
علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ربیع کہتے ہیں میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا :کیف کانت تلک الربوبیۃ فی بنی اسرائیل ؟
’’بنی اسرائیل کس طرح غیراللہ کو رب سمجھتے تھے ؟‘‘
ابوالعالیۃ نے جواب دیا :جب انہیں تورات میں کوئی ایسی بات ملتی جو ان کے علماء اور پیروں (درویشوں )کے خلاف ہوتی تو وہ اپنے علماءو پیروں کی بات لے لیتے اور تورات کو پسِ پشت ڈال دیتے تھے۔
[تفسیر کبیر 37/10، دارالکتب العلمیہ طھران ]
درج بالا آیت و حدیث وغیرہ سے ثابت ہوگیا کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے مولویوں اور پیروں کو حاکم اور شارع کی حیثیت دی یہ آیت اگرچہ یہود ونصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی لیکن یہ بات بالاتفاق قانون کی حیثیت رکھتی ہے :
[العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب ] 
’’یعنی لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ سبب کے خصوص ( شان نزول ) کا اعتبار ہوتا ہے ‘‘
اگر ایسا نہ ہو یعنی لفظ کے عموم کا اعتبار نہ کیاجائے تو پھر قرآن مجید کی کوئی آیت ہم پر صادق نہ آئے ۔دوسری بات یہ ہے کہ شایدنبی ﷺ نے فرمایا :
لتتبعن سنن من کان قبلکم (صحیح بخاری )
’’تم ضرور میرے بعد یہود ونصاریٰ کے طریقہ کار کو اختیار کرو گے ‘‘
اور حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے اپنے علماء اور پیروں کو شارع کی حیثیت دی اسی طرح اس امت کے مقلدین نے بھی اپنے اماموں کو وہی حیثیت دی ،اسی لئے قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
’’مقلد کے ہاں عملاً (اپنے امام ) امتی کا وہی مقام ہوتا ہے جوامتی کے نزدیک نبی کا ہوتا ہے ۔‘‘ [ترتیب المدارک،ص:78،ج:1]
قریب قریب یہی بات شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مقلدین کی حالت زار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی۔
[تفھیمات، ص:151،ج:1 ،حجۃ اللہ البالغہ،ص:155 ،ج:1]
اب ہم ذیل میں یہود ونصاریٰ کے طرز تقلید کے عملی نمونے پیش کرتے ہیں تاکہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے ۔
انکار قرآن کا مقلدانہ اصول :
ابو الحسن الکرخی الحنفی نے کہا ہے :
الاصل ان کل اٰیۃ یخالف قول اصحابنا فانھا تحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولیٰ ان تحمل علی التأویل من جھۃ التوفیق
’’ اصل یہ ہے کہ ہر آیت جو ہمارے ساتھیوں (فقہاءاحناف ) کے خلاف ہے اسے منسوخیت پر محمول یا مرجوح سمجھا جائے گا بہتر یہ ہے کہ تطبیق کرتے ہوئے اس آیت کی تأویل کر لی جائے ۔
[اصول کرخی، ص:29، اخریٰ ،ص:11، مجموعہ قواعد الفقہ،ص:18]
منصب رسالت اور تقلید :
اصول کی کتب میں یہ بات مذکور ہے کہ اما المقلد فمستندہ قول مجتھدہ ’’مقلد کی دلیل اس کے امام کا قول ہے ۔‘‘
[مسلم الثبوت ،ص:7،مکتبہ رحمانیہ اردو بازار] 
تقلیدی علماء کے نظریات بابت تقلید:
ایک معروف مقلد لکھتا ہے : یہ بحث شرعا لکھ دی ہے ورنہ رجوع الی الحدیث وظیفہ مقلد نہیں ہے ۔ [احسن الفتاویٰ ،ص:50،ج:3]
اسی طرح ایک مقلد کو کسی سائل نے سوال پوچھا اور کہا کہ حدیث رسول ﷺ سے جواب دیں اس جواب میں مقلد مفتی لکھتا ہے :
اب چند الفاظ اس فقرے کے بارے میں بھی کہہ دیں جو آپ نے سوال کے اختتام پر سپردقلم کیا ہے یعنی حدیث رسول ﷺ سے جواب دیں ۔
اس نوع کا مطالبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں یہ دراصل اس قاعدہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ مقلدین کے لئے قرآن وحدیث کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ ائمہ کے فیصلے اور فتووں کی ضرورت ہے۔ 
[ماہنامہ تجلی دیوبند ،ج:19،شمارہ:11-12،جنوری ،فروری ،ص:47]
ایک اور مقلد حکیم الاسلام لکھتا ہے :
اب ایک فیصلہ جو اب عرض کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں ہماری اصل دلیل تو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ،ہم یہ آیت واحادیث سائل کی تائید کے لئے پیش کرتے ہیں احادیث یا آیات امام ابوحنیفہ کی دلیلیں ہیں
[جاء الحق،ص:9، ج:2]
ایک مقلد حکیم الامت لکھتا ہے :
اکثر مقلدین عوام کیا خواص اس قدر جامد ہیں کہ اگر قول مجتھد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح وانبساط نہیں رہتا بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتاہے پھر تأویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتھد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تأویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لئے تأویل ضروری سمجھتے ہیں دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتھد کو چھوڑکر حدیث صحیح صریح پر عمل کرلیں ۔ 
[تذکرۃ الرشید ،ص:131، ج:1، مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور ]
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ کا فیصلہ:
اگر تم یہودیوں کانمونہ دیکھنا چاہتے ہو تو (ہمارے زمانے کے )علماء سوءکو دیکھ لو جو دنیا کی طلب اور (اپنے) سلف کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں ،یہ لوگ کتاب وسنت کی نصوص (دلائل) سے منہ پھیرتے ہیں اور کسی (اپنے پسندیدہ) عالم کے تعمق، تشدد اور استحسان کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھے ہیں انہوں نے رسولﷺ جو معصوم ہیں ان کے کلام کو چھوڑ کر موضوع روایات اور فاسدتأویلوں کو گلے سے لگا لیا ہے اسی وجہ سے یہ لوگ ہلاک ہوگئے ہیں۔
[الفوز الکبیر فی اصول التفسیر ،ص:25،مکتبہ امدادیہ ملتان ]
آل تقلید اور حدوداللہ :
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اکثر مسلمان ممالک عرصہ دراز سے قانون الٰہی سے محروم ہیں اس کے ذمہ دار جہاں وہ ظالم حکمران ہیں جنہوں نے حدود اللہ کو عملاً نافذ کرنا ترک کر دیا ہے ان سے بھی زیادہ وہ اصحاب علم وفتویٰ ذمہ دار ہیں جنہوں نے حکمرانوں کوحدود میں ایسی شقیں ایجاد کر کے دیں جن کی موجودگی میں حدودکا نفاذممکن نہ رہا ان حضرات نے سب سے پہلے گزشتہ امتوں کی طرح اقامت حدود میں شریف وضعیف میں تفریق پیدا کر دی اور اپنی زور قانون سازی سے سلاطین کو حدود سے مستثنیٰ قرار دیا۔صدارتی استثناء :
بنیﷺ نے سابقہ امتوں کی بربادی کاسبب بیان کرتے ہوئے فرمایا :
اذا سرق الشریف ترکوہ واذا سرق الضعیف فیھم اقامواعلیہ الحد 
’’جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تواس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی ان میں کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دیتے ۔‘‘
[صحیح بخاری کتاب الحدود باب کراھیۃ الشفاعۃ فی الحد ،رقم:6788]
حدود اللہ خالص اللہ کا حق ہے اور قانون میں اشراف پر حدود کے نفاذ کا تذکرہ موجود ہے اور اشراف میں بادشاہ وقت سب سے پہلے نمبر پرآتا ہے جبکہ اس کے مد مقابل یہ قانون بنایا گیا :
وکل شیء صنعہ الامام الذی لیس فوقہ امام فلا حد علیہ الا القصاص فانہ یوخذ بہ و بالاموال 
’’وہ امام جس سے اوپر کوئی امام نہ ہو جو کچھ بھی کرے اس پر کوئی حد نہیں سوائے قصاص کے ،اس کے ساتھ اسے پکڑا جائے گا اور اموال کے ساتھ ‘‘
[الھدایۃ کتاب الحدود ،باب الوطء الذی یوجب الحد والذی لایوجبہ، ص:99، ج:4، مکتبہ البشریٰ ]
شاتم رسولﷺ اور ابطال حدود:
اسلام میں شاتم رسول واجب القتل جبکہ فقہ حنفی میں وہ شاتم رسول کافرجوٹیکس دیتا ہو واجب القتل نہیں :
ومن امتنع من الجزیۃ او قتل مسلماً او زنیٰ بمسلمۃ او سب النبی لم ینتقض عھدہ 
’’ جو ( ذمی کافر) جزیہ دینے سے انکار کر دے یا مسلمان کو قتل کر دے یا اس نے مسلمان عورت کے ساتھ زنا کیا یا نبیﷺ کو گالی دی ،اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا یعنی وہ واجب القتل نہیں ہے ۔‘‘
[الھدایۃکتاب السیر ،ص:598،ج:2،فتاویٰ عالمگیری ،ص:253، ج:2]
بلکہ حنفی فقیہ ابن نجیم حنفی لکھتا ہے :
نعم نفس المؤمن تمیل إلی قول المخالف فی مسئلۃ السب لٰکن اتباعنا للمذھب واجب 
’’ مؤمن کا دل نفس مسئلہ میں سبّ رسول ﷺ میں مخالف (امام شافعی ) کے قول کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن ہمارے لئے اپنے مذہب کی اتباع ضروری ہے ۔ 
[البحر الرائق کتاب السیر ،ص:115،ج: , 5اخریٰ: 195/5]
زانی سے حد ساقط:
قرآن مجید کا فیصلہ :
﴿ ٱلزَّانِيَةُ وَٱلزَّانِى فَٱجۡلِدُواْ كُلَّ وَٲحِدٍ۬ مِّنۡہُمَا مِاْئَةَ جَلۡدَةٍ۬﴾*ۖ(النور:2)
’’ زانی مردو زن کو سو کوڑے لگاؤ ‘‘
اگر زانی شادی شدہ ہے تواس کو رجم کیا جائے گا جبکہ فقہ حنفی میں عورت کو کرایہ پر لے کر زنا کرنے سے کوئی حد نہیں چنانچہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب میں مرقوم ہے:
استأجر إمراۃ لیزنی بھا او لیطأھا او قال خذی ھذہ الدراھم لأطأک او قال مکنینی بکذا ففعلت لم یحد .......ولو قال امھرتک کذا لأزنی بکِ لم یجب الحد
’’کسی آدمی نے کرایہ پر عورت لی تاکہ اس سے زنا کرے یا جماع کرے یا وہ اس کو کہے تو یہ درھم لے لے تاکہ میں تجھ سے صحبت کروں یا مجھے اپنے اوپر قدرت دے اور عورت نے ایسا کر لیا (یعنی زنا کروالیا)تو اس پر کوئی حد نہیں ۔‘‘ 
[فتاویٰ عالمگیری ،ص:149، ج:2، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ، البحر الرائق ،ص:30، ج:5،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ ]
گونگے سے حد معاف :
لا یؤخذ الأخرس بحد الزنا ولا بشیءمن الحدود 
’’ گونگے آدمی پر نہ زنا کی حدہے نہ ہی کوئی اور شرعی حد لاگو ہو گی ‘‘
گونگے کو عام طور پر چھوٹ جو مرضی جرائم کر لے ہر حد اسے معاف ۔ 
[فتاویٰ عالمگیری، ص:149، ج:2، کتاب الحدود الباب الرابع فی الوطءالذی یوجب الحد والذی لایوجبہ]
دار الحرب میں زنا کرنے والے پر حد معاف :
ومن زنیٰ فی الحرب او فی دار البغی ثم خرج الینا لایقام علیہ الحد
’’جو بندہ دارالحرب میں یا دار البغی (انڈیا، امریکہ، برطانیہ وغیرہ )میں زنا کرے پھر وہ مسلمانوں کے پاس آجائے اس پر حد لاگو نہیں ہوگی ‘‘ 
[فتاویٰ عالمگیری، ص:149، ج:2، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]
کتابوں کی چوری پر حد :
لاقطع فی الدفاتر کلھا 
’’کتابیں چوری کرنے میں کوئی حد نہیں‘‘
[الھدایۃ کتاب السرقۃ باب مایقطع فیہ وما لا یقطع،ص:146، ج:4مطبوعہ مکتبہ البشریٰ کراچی ]
قرآن مجید کی چوری پر حد ساقط:
ولا فی سرقۃ المصحف وان کان علیہ حلیۃ 
قرآن مجید کے نسخے چوری کرنے میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگرچہ اس پر زیورات(تزیین وآرائش کےلئے ) ہوں‘‘
اور عالمگیری میں ہے کہ اگرچہ وہ تزیین وآرائش کا اتنا کام ہو جو ہزار درھم کے برابر ہو تب بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ 
[الھدایۃ کتاب السرقۃ باب مایقطع فیہ، ص:144، ج:4،فتاویٰ عالمگیری،ص: 177،ج:2]
بردہ فروش سے حد ساقط :
ولا قطع علی سارق الصبی الحر وان کان علیہ حلی لان الحر لیس بمال وما علیہ من تبع لہ 
’’آزاد بچے کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائےگا اگرچہ اس پر زیور ہو کیونکہ وہ مال نہیں اور جواس پر زیور ہے وہ اس کے تابع ہے۔‘‘
[الھدایۃکتاب السرقۃباب مایقطع،ص:145،ج:4،مکتبہ البشریٰ کراچی]
مسجد سے چوری پر حد نہیں ہے :
ولا یقطع فی ابواب المسجد ۔ ۔ ۔لا یحرز بباب المسجد ما فیہ حتیٰ لایجب القطع بسرقۃ متاعہ
مسجد سے چوری کرنے والے کا بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ ۔ ۔ کیونکہ مسجد کے دروازے سے وہ چیزیں محفوظ نہیں ہوتی جو اس میں ہیں اس لئے اس سامان کی چوری سے ہاتھ کاٹنا واجب نہیں ۔‘‘ 
[الھدایۃ کتاب السرقۃ باب مایقطع فیہ، ص:144-145، ج:4]
دکان سے محافظ کی موجودگی میں چوری پر حد نہیں :
دکانوں سے چوری کرنے والوں کو تحفظ دینے اور شرعی حدود کو باطل و کالعدم کرنے کے لئے کئی قسم کی حیلہ سازیاں بھی کی گئی ہیں جن میں سے ایک ضابطہ یہ بھی ہے چنانچہ ھدایہ میں ہے :
والحرزعلی نوعین حرزلمعنی فیہ کالبیوت والدور وحرز بالحافظ ۔ ۔ ۔ ۔ وفی المحرز بالمکان لایعتبر الاحراز بالحافظ
’’حرز کی دو قسمیں ہیں ایک وہ حرز کہ خود اس میں حفاظت کا مفہوم موجود ہے جیسا کہ مکان اور گھر اور ایک وہ حرز جو حفاظت کرنے والے کی وجہ سے محفوظ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس کی حفاظت جگہ کی وجہ سے ہو رہی ہے ( مثلاً:مکانات اور گھر وغیرہ)اس کی حفاظت محافظ کے ساتھ معتبر نہیں ہے‘‘
[الھدایۃ ،کتاب السرقۃ باب مایقطع فیہ ،ص:154، ج:4]
پھر دکانوں ،ہوٹلوں اور اس قسم کے مقامات پر اس ضابطہ کو منطبق کیاہے چنانچہ ھدایۃ میں ہے :
بخلاف الحمام والبیت الذی اذن للناس فی دخولہ حیث لایقطع لانہ بنی فکان المکان حرزا فلا یعتبرالحراز بالحافظ
’’یعنی حمام اور ان تمام مکانوں سے جہاں لوگوں کو داخلے کی اجازت دی گئی ہے (یعنی دکانیں اور میزبان کا گھر وغیرہ) چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ یہ عمارتیں بنائی ہی اسی لئے گئی ہیں اس لئے یہ جگہ خود حفاظت والی ہے چنانچہ یہاں حفاظت کرنےوالےشخص کی حفاظت کاکوئی اعتبارنہیں ہوگا۔‘‘
[الھدایۃ،ص:155، ج:4]
یعنی دکانوں پر مالک اور پہرے دار بھی کھڑے ہوں ،چور غیر محفوظ جگہ سے ہی چوری کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ سارا قاعدہ ہی ایجاد بندہ ہے۔
(تلک عشرۃ کاملۃ)
ابطال حدود اور آل تقلید :
عالم اسلام میں ہمیشہ سے ایسے لوگ بھی رہے ہیں جنہوں نے حدود الٰہی سےصاف انکار کر دیا خواہ رجم ہو یا چور کا ہاتھ کاٹنا اب بھی مسلمان کہلانے والے کئی ایک حکمران ،جج، وکیل، دانشور، منکرین حدیث بلکہ دراصل منکرین حدود ہیں جو مغربی ملکوں سے ذہنی شکست خودگی کی وجہ سے چور کے ہاتھ کاٹنے کو وحشیانہ سزا قرار دیتے ہیں اور چورکا ہاتھ کاٹنے کی صورت میں تمام ملک کے لوگ ٹنڈےکر دیے جانے کا واہمہ زور وشور سے پھیلاتے رہتے ہیں یہ لوگ قرآن مجید کے فرمان ’’چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو!‘‘ کو بھی نت نئے معانی کاجامہ پہناتے رہتے ہیں مگر عام مسلمان ان کی رائے کو ایک گمراہ ذہنیت سے زیادہ ماننے کو تیار نہیں کیونکہ ان کے دل سے اس مبارک دور کی یاد مٹ نہیں سکتی جب ان حدود الٰہیہ کی بدولت حیرہ سے تنہا عورت نکل کر بیت اللہ کا طواف کرتی تھی اور اسے اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہوتا تھا اور اب بھی وہ بچشم سر ان برکات کو سعودی عرب میں دیکھ رہے ہیں اس کے برعکس مغربی قوانین کی بدولت کسی ملک میں اس امن واطمینان کی کوئی نظیر نہیں ملتی چونکہ ان قوانین کا نتیجہ چوری، ڈاکے،آبرو ریزی اور بد امنی میں روزافزوں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں نکلااس لئے عام مسلمان مغرب کے ان ذہنی غلاموں کی بات کو دل ودماغ میں جگہ دینے کےلئے تیار نہیں ہو سکے ابطال حدود کے لئے ان کا طریقہ کار عامۃ المسلمین میں مؤثر نہ ہو سکا ۔
ابطال کا دوسرا طریقہ:
جو کامیاب بھی ثابت ہواان لوگوں نے اختیار کیا جو پورے زور سے اعلان کرتے رہے کہ زنا کی سزا درے اور رجم ہے ،چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ،شراب کی حد درے مارنا ہے ،اپنی تقریروں اور تحریروں میں خلافت اسلامیہ کے مبارک دور کے خواب بھی دکھاتے رہے عوام کے سامنے حدود الٰہیہ کے پاسبان بن کر آئے مگر قانون بناتے وقت صرف کتاب وسنت پر اکتفاء کرنے کی بجائے اس میں اپنی عقلی موشگافیوں اور دور از کار شکوک وشبہات کے ذریعے ایسی شقیں شامل کر دیں کہ عملاً چور کا ہاتھ کاٹنا ممکن نہ رہا، زانی کو درے مارنا یارجم کرنا اور نہ ہی شرابی پر حد نافذ کرنا چونکہ یہ لوگ قانون الٰہی کے محافظ ہونے کے روپ میں سامنے آئے اور انہوں نے تنفیذ حدود کے پردے میں ابطال حدود کا کام سرانجام دیا اس لئے ان کے دام ہمرنگ زمین سے بہت کم خوش قسمت بچ سکے اس وقت بھی یہ حالت ہے کہ ایک طرف پاکستان کے مسلمان اسلامی حدود کے نفاذ کے لئے سخت بے قراری کا اظہار کرتے رہتے ہیں تو دوسری طرف ان کی اکثریت نے ایسے لوگوں کو اپنا پیشوا اور رہنما بنایا ہوا ہے جو دن رات اپنے اکابرین ومتفیقھین کے خود ساختہ قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں جس نے حدود الٰہیہ کو عملاً معطل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی عملی حقائق جاننے کے لئے پانچ سو حنفی علماء کا اجتماعی فتویٰ عالمگیری اور فقہ حنفی کی معتبر دستاویز الھدایۃ وغیرھما کی کتاب السیر ،کتاب الحدود،کتاب السرقۃ،کتاب الطلاق وغیرہ کا مطالعہ کرلیں یا ہمارے شیخ حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ کی مطبوعہ کتاب چوری کے متعلق قانون الٰہی اور قانون حنفی دیکھ لیں ابطال حدود کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ۔ان شاء اللہ قارئین کرام آپ نے پڑھ لیا کہ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے کون کرتا ہے؟اور اپنے معاملات کو کون ان طواغیت کے پاس لے کر جاتے ہیں؟وہ فیصلے نکاح،طلاق،کے ہوں یا غسل ،نماز کے۔جو بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف فیصلے کرے گا وہ تکفیریوں کے نزدیک تو کافر ہو جائے گا۔لیکن ان تقلیدی ملاؤں کو استشناء کس بنیاد پر؟ 
ایک شخص جج،وکیل،حکمران اللہ کی نازل کردہ شریعت سے ہٹ کر انتظامی معاملات میں غیر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور ان کو اللہ کے فیصلوں سے افضل قرار بھی نہیں دیتا۔اور دوسرا شخص عقیدہ میں اللہ کے نازل کردہ شریعت کو چھوڑ کر امام ماتریدی کے عقیدے کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور نماز،روزہ،حج ،زکواۃ،جیسی عبادات میں اللہ نے نازل کردہ احکام کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کے قانون کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ کون بڑا مجرم ہے؟
یہاں پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مصالحہ دار فتوى ملاحظہ فرمائیں :
..... كَمَنْ يَتَعَصَّبُ لِمَالِكٍ أَوْ الشَّافِعِيِّ أَوْ أَحْمَدَ أَوْ أَبِي حَنِيفَةَ، وَيَرَى أَنَّ قَوْلَ هَذَا الْمُعَيَّنِ هُوَ الصَّوَابُ الَّذِي يَنْبَغِي اتِّبَاعُهُ، دُونَ قَوْلِ الْإِمَامِ الَّذِي خَالَفَهُ. فَمَنْ فَعَلَ هَذَا كَانَ جَاهِلًا ضَالًّا: بَلْ قَدْ يَكُونُ كَافِرًا؛ فَإِنَّهُ مَتَى اعْتَقَدَ أَنَّهُ يَجِبُ عَلَى النَّاسِ اتِّبَاعُ وَاحِدٍ بِعَيْنِهِ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةِ دُونَ الْإِمَامِ الْآخَرِ فَإِنَّهُ يَجِبُ أَنْ يُسْتَتَابَ، فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ. ..... 
اس شخص کی طرح جو مالک یا شافعی یا احمد یا ابو حنیفہ کی اتباع تعصب کے ساتھ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہی درست ہے جسکی اتباع کرنا جائز ہے اور مخالف امام کی اتباع جائز نہیں ہے , تو جو بھی ایسا کرتا وہ جاہل اور گمراہ ہے ۔ بلکہ بسا اوقات وہ کافر بن جاتا ہے ۔ کیونکہ جب اس نے یہ اعتقاد رکھا کہ لوگوں پر ان اماموں میں سے ایک ہی امام کی اتباع واجب ہے اور کسی دوسرے کی اتباع جائز نہیں تو واجب ہے کہ اس سے توبہ کروائی جائے اگر توبہ کر لیتا ہے تو ٹھیک وگرنہ قتل کر دیا جائے 
الفتاوى الکبرى لابن تیمیہ ج ۲ ص104, ۱۰۵
 






