Powered by Blogger.

مغفرت يزيدوالي صحيح بخاري کي حديث

شئیر کریں


آپ نے غزوۂ قسطنطنيہ کے حوالے سے يزيد کي مغفرت کي جو تصريح کي ہے۔ اس مغفرت سے کيا مراد ہے۔ اور محدثين وشراح بخاري نے اس حديث سے کيا مراد ليا ہے اور يزيد کے متعلق کيا تصريحات فرمائي ہيں اور ابن (1) مہلب کے قول کے متعلق کيا کہا ہے؟ ( مدير رضائے مصطفى )


((1)  يہ "ابن مہلب" نہيں صرف "مہلب" ہے سائل کو غالباً مغالطہ لگا ہے يا قلم کا سہو ہے۔)

الجواب:





مسئلہ يزيد کی مغفرت کا:

 مغفرت سے مراد وہي ہے جو اس کا عام مفہوم ہے کہ اللہ تعاليٰ کا کسي بندے کے گناہوں کو نظر انداز کرکے اس کو معاف کردينا، بخش دينا اور اپنے انعامات کا مستحق قرار دے دينا۔

باقي رہي بات کہ محدثين وشراح بخاري نے اس سے کيا مراد ليا ہے اور يزيد کے متعلق کيا تصريحات فرمائي ہيں؟ اور "ابن مہلب" کے قول کے متعلق کيا کہا ہے؟ تو محترم مدير صاحب! اگر ہماري مختصر تصريحات پر ذرا گہري نظر سے غور فرماليتے تو شايد وہ يہ سوالات نہ کرتے کہ ہماري مختصر سي عبارت ميں ان تمام باتوں کا جواب موجود ہے۔ مناسب ہے کہ ہم پہلے اپنے سابقہ مضمون کي وہ عبارت يہاں نقل کرديں جس پر يہ سوال کيا گيا ہے۔ اس کے بعد مزيد گفتگو موزوں رہے گي۔ ہم نے لکھا تھا:

"کم از کم ہم اہل سنت کو اس حديث کے مطابق يزيد کو برا بھلا کہنے سے باز رہنا چاہيے جس ميں رسول اللہﷺ نے غزوۂ قسطنطنيہ ميں شرکت کرنے والوں کے متعلق مغفرت کي بشارت دي ہے اور يزيد اس جنگ کا کمانڈر تھا۔ يہ بخاري کي صحيح حديث ہے اور آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے، کسي کاہن يا نجومي کي پيشين گوئي نہيں کہ بعد کے واقعات اسے غلط ثابت کرديں۔ اگر ايساہوتو پھر نبي کے فرمان اور کاہن کي پيشين گوئي ميں فرق باقي نہ رہے گا۔ کيا ہم اس حديث کي مضحکہ خيز تاويليں کرکے يہي کچھ ثابت کرنا چاہتے ہيں۔"

مدير موصوف کو اگر ہماري اس بات سے اختلاف تھا تو ان کو بتلانا چاہيے تھا کہ نبي کي بشارت اور نجومي کي پيشگوئي ميں کوئي فرق ہے يا نہيں۔ اگر ہے تو وہ کيا ہے؟ کيونکہ اس حديث کي ايسي تاويل جس سے بشارت کا پہلو ختم ہوجائے، حضور ﷺ کے قول کو ايک کاہن کے قول سے زيادہ اہميت نہ دينے پر ہي صحيح قرار پاسکتي ہے۔ اس کے بغير جب غزوۂ قسطنطنيہ کے شرکاء ميں سے کسي ايک کو بھي مغفرت کي بشارت سے خارج نہيں کيا جاسکتا تو ہميں بتايا جائے کہ کس طرح ممکن ہے کہ حضور ﷺ کي پيش کوئي بھي اٹل ہو اور پھر اس ميں سے کسي کا تخلف بھي ہوجائے، بيک وقت دونوں باتيں ممکن نہيں۔

امام مہلب کے قول يہي تو کہا گيا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا يہ قول مشروط ہے اس بات سے کہ ان شرکاء ميں سے بعد ميں کفر وارتداد کا ارتکاب نہ ہوا ہو۔ اگر کسي نے ايسا کيا تو وہ اس بشارت سے خارج ہوجائے گا ليکن اس تاويل ميں کوئي وزن نہيں۔ معلوم نہيں صحيح بخاري کے جليل القدر شارحين اس تاويل کو بغير کسي رد و نقد کے کيوں نقل کرتے آئے ہيں؟ حالانکہ يہ تاويل بالکل ويسي ہي ہے جيسي تاويل شيعہ حضرات صحابہ ٔ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين کے بارے ميں کرتے ہيں ۔ وہ بھي يہي کہتے ہيں کہ ٹھيک ہے آنحضرت ﷺ کي زندگي ميں صحابہ کو "رضي اللہ عنہم ورضوا عنہ" کا سرٹيفيکيٹ ديا گيا تھا۔ ليکن آپﷺ کي وفات کے بعد چونکہ (نعوذباللہ) وہ مرتد ہوگئے، اس ليے وہ اس کے مستحق نہيں رہے۔ اگر صحابہ ٔ کرام کے بارے ميں يہ لغو تاويل آپ کے نزديک قابل قبول نہيں تو پھر يزيد کے بارے ميں يہ تاويل کيوں کر صحيح ہوجائے گي؟

پھر محض امکان کفر و ارتداد کو وقوع کفر وارتداد سمجھ لينا بھي سمجھ سے بالاتر ہے۔ مان ليجئے کہ حضور ﷺ پيش گوئي مشروط ہے اور کفر وارتداد کرنے والے اس سے خارج ہوجائيں گے ليکن اس کے بعد اس امر کا ثبوت بھي تو پيش کيجئے کہ يزيد کافر و مرتد ہوگيا تھا اور پھر اسي کفر وارتداد پر اس کا خاتمہ بھي ہوا، جب تک آپ کا واقعي ثبوت پيش نہيں کريں گے بشارت نبوي کو مشروط ماننے سے بھي آپ کو کوئي فائدہ نہيں ہوگا۔

اگريہ کہا جائے کہ قتل حسين رضي اللہ عنہ کا حکم يا اس پر رضامندي يہي کفر وارتداد ہے تو يہ بھي لغو ہے۔ اول تو اس امر کا کوئي ثبوت نہيں کہ يزيد نے حضرت حسين رضي اللہ عنہ کے قتل کا حکم ديا يا اس پر رضا مندي کا اظہار کيا، جيسا کہ امام غزالي نے اس کي تصريح کي ہے، وہ لکھتے ہيں:

((ما صح قتلہ للحسين رضي الہ عنہ ولا أمرہ ولا رضاہ بذٰلک)) (وفيات الاعيان: 450/2)

"حضرت حسين رضي اللہ عنہ کو يزيد کا قتل کرنا يا ان کے قتل کرنے کا حکم دينا يا ان کے قتل پر راضي ہونا، ان ميں سے کوئي بات بھي ثابت نہيں۔"

اور احياء العلوم ميں لکھتے ہيں:

((فإن قيل ھل يجوز لعن يزيد بکونہ قاتل الحسين أو آمراً بہ قلنا ھٰذا لم يثبت أصلا ولا يجوز أن يقال إنہ قتلہ أو أمر بہ مالم يثبت)) (أحياء العلوم : 131/3)

"اگر يہ سوال کيا جائے کہ کيا يزيد پر لعنت کرني جائز ہے ، کيونکہ وہ حضرت حسين رضي اللہ عنہ کا قاتل ہے يا ان کے قتل کا حکم دينے والا ہے تو ہم جواب ميں کہيں گے کہ يہ باتيں قطعاً ثابت نہيں ہيں اور جب تک کوئي ثبوت نہ ہو اس کے متعلق يہ کہنا جائز نہيں کہ اس نے قتل کيا يا قتل کا حکم ديا۔"

اگر يہ مان بھي ليا جائے کہ يزيد ہي نے قتل کا حکم ديا تب بھي حکم قتل تو کجا، اگر وہ خود ہي حضرت حسين رضي اللہ عنہ کو قتل کرنے والا ہوتا تب بھي محض قتل سے کافر و مرتد قرار نہيں پا سکتا چہ جائے کہ حکم قتل سے۔ يہ بھي ايک کبيرہ گناہ ہي ہے، کفر وارتداد نہيں۔ چنانچہ ملا علي قاري حنفی لکھتے ہيں:

((علي أن الأمر بقتل الحسين بل قتلہ ليس موجباً للعنۃ علي مقتضيٰ مذہب أھل السنۃ من أن صاحب الکبيرۃ لا يکفر فلا يجوز عند ھم لعن الظالم الفاسق کما نقلہ جماعۃ يعني بعينہ)) (ضوء المعالي علي بدء الأمالي ص:86، طبع جديد)

"حضرت حسين رضي اللہ عنہ کے قتل کا حکم دينا بلکہ خود ان کا قتل کردينا بھي مذہب اہل سنت کے مقتضي کے مطابق لعنت کا موجب نہيں، (اس ليے کہ يہ کبيرہ گناہ ہي ہے) اور مرتکب کبيرہ گناہ کو کافر نہيں کہا جا سکتا۔ پس اہل سنت کے نزديک کسي ظالم ، فاسق شخص کےليے متعين طور پر لعنت کرني جائز نہيں۔"

ايک اور حنفي بزرگ مولانا اخوند درويزہ اسي قصيدہ امالي کي شرح ميں لکھتے ہيں:

"مذہب اہل سنت وجماعت آن ست کہ لعنت بغير از کافر مسلمان رانيا مدہ است۔ پس يزيد کافر نبود بلکہ مسلمان سني بود وکسے بہ گناہ کردن کافر نمي شود در تمہيد آور دہ است کہ قاتل حسين را نيز کافر نبايد گفت۔ زيرا کہ بہ گناہ کردن کسے کافر نمي شود۔" (شرح قصيدہ امالي، طبع 1317ھ لاہور)

"اہل سنت کا مذہب ہے کہ لعنت کرنا سوائے کافر کے کسي مسلمان کےليے جائز نہيں يزيد کافر نہيں، سني مسلمان تھا اور کوئي شخص محض گناہ کرلينے سے کافر نہيں ہوتا۔ تمہيد ميں ہے کہ خود قاتل حسين کو بھي کافر نہيں کہا جاسکتا۔ اس ليے کہ گناہ کرلينے سے کوئي شخص کافر نہيں ہوتا۔"

الغرض يزيد کو مغفرت کو بشارت نبوي ﷺ سے کسي طرح بھي خارج نہيں کيا جاسکتا، جن لوگوں نے ايسي کوشش کي ہے ان کے پاس سوائے بغض يزيد اور جذبۂ حب حسين رضي اللہ عنہ کے کوئي معقول دليل نہيں۔

سب سے زيادہ تعجب مدير "رضائے مصطفٰے" اور ان کے ہمنواؤں پر ہے کہ ايک طرف وہ آنحضرت ﷺ کو عالم ما کان وما يکون تسليم کرتے ہيں او ر دوسري طرف آپ کي دي ہوئي بشارت ميں سے يزيد کو خارج کرنے ميں کوشاں ہيں۔ ہم تو آنحضرتﷺ کو عالم الغيب تسليم نہيں کرتے۔ البتہ بشارات کا منبع وحئ الہٰي کو مانتے ہيں اور يہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ مستقبل کے متعلق جتني بھي پيش گوئياں حضورﷺ نے فرمائي ہيں وہ اللہ تعاليٰ سے علم اور وحي پا کر کي ہيں جو کبھي غلط نہيں ہوسکتيں اور آپ تو خود حضورﷺ کو بھي عالم الغيب مانتے ہيں ليکن پھر بھي ان کي پيش گوئي پر اعتقاد نہيں، کيسي عجيب بات ہے؟ آپ کے نزديک اس بات کا کيا جواب ہے کہ جس وقت نبي ﷺ نے غزوۂ قسطنطنيہ کے شرکاء کي مغفرت کي خبر دي، اس وقت رسول اللہﷺ کو يہ علم تھا يا نہيں کہ اس ميں يزيد جيسا شخص بھي شامل ہوگا؟ اور يہ بھي آپ کو علم تھا يا نہيں کہ يزيد بعد ميں کافر ومرتد ہوجائے گا؟ اگر ان دونوں باتوں کا آپ کو اس وقت علم تھا تو پھر نبي ﷺ نے يزيد کو مغفرت و بشارت سے خارج کيوں نہيں کيا؟ اور علم ہوتے ہوئے اگر آپ نے يزيد کو خارج نہيں کيا تو اس کا مطلب کيا ہے؟ اميد ہےمدير موصوف اپنے عقيدۂ علم غيب کے مطابق ان سوالات کي وضاحت ضرور فرمائيں گے۔

بہرحال رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ قسطنطنيہ کے شرکاء کي مغفرت کي جو پيش گوئي فرمائي ہے وہ بالکل برحق ہے اور يقيناً وہ سبمَغفُورٌ لَہُم ہيں۔ اگر ان ميں سے کوئي کافر يا مرتد ہونے والا ہوتا تو آپ اس کي بھي وضاحت فرماديتے اس ليے وہ سب شرکائے غزوہ يقيناً مسلمان تھے، غزوہ کے بعد ان کے کفر وارتداد کا امکان محض ايک واہمي، سفسطہ اور مفروضہ ہے۔ بشارت کا اقتضاء تو يہ ہے کہ ان کا خاتمہ بہرحال ايمان و اسلام ہي پر ہونا چاہيے اور يہي ہمارا اعتقاد ہے کيونکہ اس اعتقاد کے بغير ايک نبي کي پيش گوئي اور کاہن ونجومي کي پيش گوئي ميں فرق باقي نہيں رہ جاتا ہے۔ نبي ﷺ کي توہين کي ايسي جسارت ہم نہيں کرسکتے يہ تو انہي لوگوں کا جگرا ہے جو "عشق رسول" کے ٹھيکيدار بھي بنے پھرتے ہيں اور آپ کي پيش گوئي کو ايک نجومي کے اٹکل پچو سے زيادہ حيثيت دينے کےليے بھي تيار نہيں۔ معاذ اللہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرنامہ