Powered by Blogger.

قمرى تقویم کی اہمیت اور شمسی تقویم اپنانے کے نقصانات

شئیر کریں


اللہ رب العالمین نے جب سے زمین وآسمان پیدا فرمائے ہیں اس وقت سے لیے کر سال بھر میں کل بارہ مہینے رکھے اور ان سے مراد وہ مہینے نہیں ہیں جنہیں ہمارے ہاں دیسى مہینے یا انگریزى مہینے کہا جاتا ہے ۔بلکہ ان سے مراد قمرى مہینے ہیں ۔چاند کےحساب سے ‘جنہیں اسلامى مہینے کہا جاتا ہے ۔جس کے سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام ذوالجہ پہ ہوتا ہے یہ بارہ مہینوں کااللہ تعالى نے ایک سال بنایا ہے اور ان سال کے مہینوں کو شمار کرنے کے لیے اور مہینے کے دنوں کا تعین کرنے کے لیے اللہ رب العالمین نے چاند کى ڈیوٹى لگائى ہے۔ دیسی مہینے تو راجا بکرما جیت کی یاد گار ہیں اسی مناسبت سے اسے بکرمی سن کہا جاتا ہے اور انگریزی مہینے عیسى علیہ السلام کی ولادت کے یادگار ہیں اسی نسبت سے اسے عیسوى سن کہا جاتا ہے ۔ اور ان دونوں سنین کا حساب سورج کی مناسبت سے کیا جاتا ہے ۔ جبکہ رب العالمین کی شریعت میں دنوں اور سالوں کا حساب کتاب چاند پر موقوف ہے ۔

اللہ تبارک وتعالى فرماتے ہیں

: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ.(البقرة : 189)

یہ چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں یہ چاند کا کیا معاملہ ہے ؟ تو کہہ دیجئے یہ لوگوں کے لیے وقت مقرر کرنے کا ذریعہ ہے اور حج کا وقت بتانے کا بھی ۔

ہم اسے دیکھتے ہیں کبھى یہ پورا ہوجاتا ہے اور کبھى دیکھتے دیکھتے کم ہو جاتا ہے اور پھر ایک یا دودن کے غائب رہنے کے بعدپھر باریک سانظرآتا ہے پھرآہستہ آہستہ پورا ہوجاتا ہے اس کے ذریعہ لوگوں کا وقت متعین کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کے ذریعہ وقت پہچانیں ۔ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اللہ رب العالمین کے ہاں صحیح تقویم قمرى تقویم ہی ہے شمسى تقویم اللہ تعالى نے ہرگز وضع نہیں فرمائى ۔سورج کو مہینوں اور سالو ں کا حساب لگانے کے لیے مقررنہیں کیا ۔بلکہ اس کام کے لیے چاند کو مقرر کیا گیا ہے ۔ لہذا دین اسلام کے جو بھى احکامات ہیں جن میں مہینوں دنوں یاسالوں کى گنتى ہے وہ اس قمرى حساب سے ہیں۔

ہمارے ہاں تو اس قمرى تقویم کو تو بالکل پس پشت پھینک دیا گیا ہے۔ حتى کہ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کون سا مہینہ ہے اور یہ اس کى کون سى تاریخ ہے۔ جبکہ انگریزى مہینے ان کى تاریخیں ان کا سال سب کو ازبر اور یاد ہوتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کى تاریخ پیدائش شمسى تقویم کے مطابق عیسوى /انگریزى مہینوں کے مطابق‘ جبکہ اس کا بہت بڑا نقصان ہے ۔

مثلا:

اللہ رب العالمین نے حکم دیا ہے: 

وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ

جو مدت رضاعت کو پورا کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے حکم ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو دوسال دودھ پلائیں۔(البقرۃ : ۲۳۳)

اور شمسى تقویم کے حساب سے تو ایک سال ۳۶۵دن کا ہوتا ہے جبکہ قمرى تقویم کا ایک سال ۳۵۵ دنوں کا ہوتا ہے ۔ یعنی شمسی وقمری سال میں دس دن کا فرق ہوتا ہے۔

لہذا جو قمرى تقویم کے مطابق دو سال مکمل کرے گا وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر کسى نے شمسى تقویم کے مطابق دو سال دودھ پلایا تو یقینا انہوں نے بچے کو بیس دن زائد دودھ پلادیا...! ۔ جبکہ اللہ تعالى نے صرف دو سال متعین کیے تھے ۔ دین اسلام کے جتنے بھى حساب کتاب کے جو معیار ہیں وہ سارے کے سارے اسى چاند کے ارد گرد گھومتے ہیں۔

اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالى فرماتے ہیں: 

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ (الطلاق : ۴)

وہ عورتیں حیض سے مایوس ہو گئى ہیں ان کى (طلاق سے) عدت تین ماہ ہے اور ان عوتوں کى عدت بھى جن کو ابھى حیض نہیں آیا ان کى عدت بھى طلاق کے بعد تین مہینے ہے۔

اور شمسى تقویم کے دومہینے (جولائی اور اگست )مسلسل ۳۱ دنوں کے ہوتے ہیں ایک ۳۰کا تو یہ کل ۹۲ دن بن گئے جبکہ قمرى تقویم میں دو مہینے ۳۰دن کے اور ایک ۲۹ کا لازمى ہوتا ہے تو اس حساب سے 89دن بنتے ہیں ۔

یعنی اگر کوئی شخص طلاق دینے کے بعد شمسی یا عیسوی سن کے مہینوں کا اعتبار کرے گا تو وہ شرعی عدت ختم ہو جانے کے دو تین دن بعد بھی رجوع کر بیٹھے گا ۔ اور ایک خطرناک حرام کام کا زندگی بھر مرتکب ہوتا ر ہے گا۔

تو دین اسلام نے چاند کو متعین کیا ہے تقویم کے لیے مسلمان اپنا روزنامچہ تیارکریں اپنے ملازم کو تنخواہیں دیں ‘ اپنا کاروبار چلائیں تو ان کا حساب کتاب چاند کے مطابق ہو نا چاہیے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے :

هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ

یہ لوگوں کے لیے وقت مقرر کرنے کا ذریعہ ہے ۔
سرنامہ