Powered by Blogger.

قرآن مجيد کے احکام ومسائل

شئیر کریں

قرآن مجيد فرقان حميد کو اللہ تعالى نے بہت زيادہ عزت وعظمت بخشي ہے ۔ يہ ايسي کتاب ہے کہ جسکا تعارف اللہ تعالى نے

 " ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ"

 کہہ کر کروايا ہے ۔ کہ يہ ايسي کتاب ہے جس ميں کوئي شک وشبہہ نہيں ہے ۔ اور

 " لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ [فصلت : 42]

 "يہ ايسي کتاب ہے کہ باطل نہ اسکے آگے سے آ سکتا ہے نہ پيچھے سے , يہ تو حکيم اور حميد کي طرف سے نازل شدہ ہے ۔ اور

 "تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ [الحاقة : 43]

 " رب العالمين کي طرف سے نازل شدہ ہے ۔ اور

" نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [الشعراء : 193] "

 اسے لانے والا روح الأمين (جبريل ) ہے ۔ اور

 َإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ الله [البقرة : 97]

" اللہ کے حکم سے اس نے محمد عربي صلى اللہ عليہ وسلم کے قلب اطہر پر اسے نازل کيا ہے

 " عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ [الشعراء : 194]

 " انکے قلب اطہر پر نازل کيا گيا اسے تاکہ وہ بھي لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والے بن جائيں ,

 "إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ[الدخان : 3] "

 ہم نے اسے بابرکت رات ميں نازل کيا ہے اور ہمي ڈرانے والے ہيں

" إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[القدر : 1]"

 ہم نے اسے قدر والي رات ميں نازل کيا ہے جو کہ

 " خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ [القدر : 3] "

 ايک ہزار سال سے بھي بہتر ہے ۔

 "شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ [البقرة : 185] "

رمضان المبارک کے مہينے ميں قرآن نازل ہوا ہے اور يہ لوگوں کے ليے سر چشمہء ہدايت ہے اور حق وباطل کے درميان فرق کرنيوالا بھي ۔


اللہ تعالى نے يونہي مختلف انذاز سے اپني کتاب قرآن مجيد فرقان حميد کا تعارف کروايا ہے اور اسي وحي الہي کا مقام ومرتبہ بيان کرتے ہوئے يہاں تک فرما ديا

 " اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ[الأعراف : 3] "

 جوکچھ تمہاري طرف تمہارے رب کي طرف سے نازل کيا گيا صرف اور صرف اس ہي کي اتباع کرو اور اسکے علاوہ ديگر اولياء کي اتباع نہ کرو , تم کم ہي نصيحت حاصل کرتے ہو۔


اور ايک مؤمن شخص پر لازم ہے کہ وہ اسکا ادب واحترام کرے کہ

 " وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ [الحج : 32]"

 اگر کوئي شعائر اللہ کي تعظيم کرتا ہے تو يہ تو دلوں کے تقوى کا نتيجہ ہے ۔


اور اسکے ادب واحترام ميں يہ بات بھي شامل ہے کہ قرآن کے حقوق ادا کيے جائيں , اور حقوق قرآن ميں سے ايک حق يہ بھي ہے کہ اسکي تلاوت کي جائے ۔ , مگر صد حيف کہ وہ صدائيں جو ہمارے گھروں سے صبح سويرے قرآن کي تلاوت کے ساتھ بلند ہوا کرتي تھيں ہوا ہوگئيں ..... کنبہ کے ہر فرد کے ليے صبح دم قرآن پڑھنا لازم ہوتا تھا مگر اب اخبار بيني فرض عين ہو چکا ..... , دن بھر خبروں پر تبصروں کے ليے تو بہت وقت ملتا ہے مگر تدبر قرآن , فہم قرآن , تلاوت قرآن کے ليے وقت ندارد .... , ايسا سلوک تو شايد ہمارے معاشرے ميں سوتيلوں کے ساتھ بھي روا نہيں رکھا جاتاہے ۔ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے حکم ديا تھا " اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي شَهْرٍ[ صحيح بخاري كتاب فضائل القرآن باب في كم يقرأ القرآن (5054)]" ايک ماہ ميں مکمل قرآن کي تلاوت کر ليا کرو۔ اور ہميں يہ معلوم ہے کہ جس کام کو سرانجام دينے کا حکم اللہ تعالى يا نبي کريم صلى اللہ عليہ وسلم ديں وہ کام فرضا ہوا کرتا ہے ۔ ليکن اسکے باوجود ہم اس فريضہ سے عہدہ برآ ہونے سے کوسوں دور ہيں , ادويات بچوں کي پہنچ سے دور رکھي جاتي ہيں , ليکن يہ روحاني دواء بڑوں کي پہنچ سے دور رکھ دي گئي ہے , بچے تو شايد صبح وشام مساجد ميں جا کر يا گھر پہنچ کر پڑھانے والے قاري صاحب کے سامنے روزانہ قرآن کا کچھ حصہ پڑھ ہي ليتے ہيں مگر اس ميدان ميں بڑے بچوں سے پيچھے ہيں , لہذا انہيں اپني ان اداؤں پہ غور کرنا چاہيے اور بچوں کو ديکھ کر ڈوب مرنا چاہيے !!!


قرآن مجيد فرقان حميد کي تلاوت کے بھي کچھ آداب ہيں , جن تمام تر آداب کا خلاصہ يہ ہے کہ ہميں تلاوت ويسے ہي کرني چاہيے جسطرح رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں کرکے دکھائي ہے اور ہميں سکھائي ہے ۔
نبي کريم صلى اللہ عليہ وسلم کي تلاوت کا انداز کيا تھا ؟ وہ کيسے قرآن پڑھا کرتے تھے ؟ قرآن برزبان صاحب قرآن کيسے جاري ہوا کرتا تھا ؟ آئيے يہ سب باتيں ہم ان سے پوچھتے ہيں جو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کے روز وشب کو اپنے سينوں ميں سموئے ہوئے ايک خاموش داعي کے طور پر کتب احاديث کي شکل ميں ہمارے مابين موجود ہيں :
سيدنا انس بن مالک رضي اللہ عنہ سے پوچھا گيا کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم قرآن کيسے پڑھتے تھے تو آپ رضي اللہ عنہ فرمانے لگے :

كَانَتْ مَدًّا ثُمَّ قَرَأَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَمُدُّ بِبِسْمِ اللَّهِ وَيَمُدُّ بِالرَّحْمَنِ وَيَمُدُّ بِالرَّحِيمِ [صحيح بخاري كتاب فضائل القرآن باب مد القراءة (5046)]

 کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کي قراءت لمبا کھينچ کھينچ کر ہوتي ,پھر انہوں نے بطور مثال بسم الله الرحمن الرحيم پڑھ کر سنائي اور بتايا کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم بسم اللهکولمبا کھينچتے ,

"الرحمن " کو لمبا کرتے , " الرحيم "

 کو لمبا کرتے ۔
ام المؤمنين سيدہ ام سلمہ رضي اللہ عنہا نے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کي قراءت کا انداز ذکر کرتے ہوئے فرمايا :


 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * الْحَمْدُ اللهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ * الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ * يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ آيَةً آيَةً [سنن أبي داود كتاب الحروف والقراءات باب ٌ (4001) ]


کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * الْحَمْدُ اللهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ * الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ * پڑھتے اور ہر ہر آيت کوعليحدہ عليحدہ کرکے پڑھتے , يعني ہر آيت پر وقف فرمايا کرتے ۔


اور يہي حکم اللہ تعالى نے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کو ديا ہے کہ

 "وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً [المزّمِّل : 4]"

 قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھيے ۔ کيونکہ اللہ تعالى نے اسي انداز ميں امام الانبياء جناب محمد رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کو پڑھايا ہے

"وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلاً [الفرقان : 32]"

 اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھايا ہے ۔قرآن مجيد کي دو دو , تين تين , يا زائد آيات کو ايک ساتھ , بغير وقف کے پڑھنا رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں بلکہ يہ سنت کي مخالفت ہے ۔


اور تلاوت قرآن سے قبل اللہ تعالى نے تعوذ پڑھنے کا حکم ديا ہے

"فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ [النحل : 98]"

 جب آپ قرآن کي تلاوت کرنے لگيں تو شيطان مردود سے اللہ تعالى کي پناہ مانگ ليا کرو۔ پناہ مانگنے کا طريقہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے سکھايا ہے کہ کيسے پناہ مانگني ہے آپ صلى اللہ عليہ وسلم قرآن مجيد فرقان حميد کي تلاوت سے قبل تعوذ کے يہ کلمات پڑھا کرتے تھے

 " أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ [ سنن أبي داود كتاب الصلاة باب من رأى الاستفتاح بسبحانك اللهم وبحمدك (775)

 جامع الترمذي أبواب الصلاة باب ما يقول عند افتتاح الصلاة (242) , سنن ابن ماجه كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها باب الاستعاذة في الصلاة (807)]


اسکے علاوہ اور بھي بہت سے مواقع پر آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے تعوذ کے مختلف الفاظ سکھائے ہيں , مثلا غصہ کے وقت تعوذ کے يہ الفاظ ہيں

" أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ " [ صحيح بخاري كتاب الأدب باب الحذر من الغضب (6115) , صحيح مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب فضل من يملك نفسه عند الغضب (2610)]


مسجد ميں داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے ہوئے تعوذ کے يہ کلمات سکھائے گئے ہيں

" أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ " [ سنن أبي داود كتاب الصلاة باب فيما يقوله الرجل عند دخوله المسجد (466)]


اسي طرح اور بھي بہت سے مواقع پر مختلف الفاظ تعوذ سکھائے گئے ہيں لہذا ہميں چاہيے کہ تعوذ کے جو کلمات جس موقع پر پڑھنے کے ليے سکھائے گئے ہيں ان کلمات کو اسي موقع پر پڑھا جائے , قرآن کي تلاوت سے قبل بوقت غصہ تعوذ والے الفاظ يا بوقت دخول مسجد تعوذ والے کلمات پڑھنے کي بجائے وہي الفاظ اپنائے اور پڑھے جائيں جو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے اس موقع پر پڑھے ہيں ۔کہ"خير الہدي ہدي محمد صلى اللہ عليہ وسلم " بہترين طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم ہي کا طريقہ ہے ۔
اسي طرح مصحف کي عزت و حرمت بھي ہمارا دين ہميں سکھاتا ہے , اور صرف قرآن مجيد ہي نہيں بلکہ تمام تر آسماني کتابوں کا ادب واحترام دين اسلام ميں لازم ہے ۔


سيدنا عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ يہوديوں کا ايک وفد نبي کريم صلى اللہ عليہ وسلم کے پاس آيا اور انہوں نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض کيا کہ آپ ہمارے پاس تشريف لائيے اور زنا کے بارہ ميں فيصلہ کيجئے , چنانچہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم انکے پاس گئے تو

" فَوَضَعُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِسَادَةً فَجَلَسَ عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ بِالتَّوْرَاةِ فَأُتِيَ بِهَا فَنَزَعَ الْوِسَادَةَ مِنْ تَحْتِهِ فَوَضَعَ التَّوْرَاةَ عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ آمَنْتُ بِكِ وَبِمَنْ أَنْزَلَكِ " [ سنن أبي داود كتاب الحدود باب في رجم اليهوديين (4449)]

انہوں نے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کے ليے تکيہ رکھا آپ صلى اللہ عليہ وسلم اس پر بيٹھ گئے پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے توراۃ منگوائي وہ لائي گئي تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے نيچے سے تکيہ نکالا اور تورات کو اس پر رکھا پھر فرمايا ميں تجھ پر بھي ايمان لاتا ہوں اور اس ذات پر بھي جس نے تجھے نازل کيا ہے ۔
يعني رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے توراۃ کو باعزت طريقے سے تکيے پر رکھ کر کھولا , ہمارا دين ہميں يہي تعليم ديتا ہے کہ منزل من اللہ کتب کي حرمت و عزت کو تسليم کيا جائے ان پر ايمان لايا جائے اور انکا ادب واحترام کيا جائے ۔
مصحف کو چھونے کے بارہ ميں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے ہيں

 " لا يمس القرآن إلا طاهر " [مستدرك حاكم 3/485]


مصحف کو طاہر کے علوہ اور کوئي نہ چھوئے ۔


يعني مصحف کو چھونے کے ليے انسان کا طاہر ہونا لازمي اور ضروري ہے ۔ لہذا حائضہ عورت اور جنبي مصحف کو نہيں چھوسکتے ۔ کيونکہ اللہ تبارک وتعالى نے ان دونوں کو طہارت حاصل کرنے کا حکم ديتے ہوئے فرمايا ہے

 "وَإِن كُنتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُواْ"[المائدة : 6]

  اگر تم جنبي ہو تو طہارت حاصل کرلو (يعني غسل کرلو) نيز فرمايا

 " وَلاَ تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىَ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ الله " [البقرة : 222]


 , اور تم ان ( حائضہ عورتوں ) کے قريب نہ جاؤ حتى کہ وہ پاک ہو جائيں, تو جب وہ طہارت حاصل کر ليں (يعني غسل کرليں ) تو جہاں سے تمہيں اللہ نے حکم ديا انکے پاس جاؤ۔


رہا زباني قرآن حکيم کي تلاوت کرنا تو اسکي ہر حالت ميں رخصت واجازت ہے ۔


اسي طرح قرآن حکيم کي حرمت و عزت کا تقاضايہ بھي ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد اس پر ايمان لايا جائے اور اسکے احکامات پر عمل پيرا ہوا جائے اور تمام تر احکامات مانے جائيں ۔ يہ نہ ہو کہ جو حکم من کو بھايا اسے مان ليا اور جس سے اپنے مفادات کو زد آتي ہو اسے چھوڑ ديا , يہ اللہ تعالى کے ہاں بہت بڑا جرم ہے

"أ َفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلاَّ خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ [البقرة : 85]"

 کيا تم کتاب کے کچھ حصہ کو مانتے ہو اور کچھ کو نہيں مانتے ؟ , تم ميں سے جو بھي ايسا کام کرے گا اسکا بدلہ صرف اور صرف يہ ہے کہ دنيا ميں اسے رسوائي ملے گي اور آخرت ميں اسے سخت ترين عذاب سے دو چار کيا جائے گا , اور اللہ تعالى تمہارے اعمال سے غافل نہيں ہے ۔


اور اسکے احکامات پر عمل کرنے کے ليے اسے سمجھنا , اس ميں غور وفکر کرنا ايک لازمي اور ضروري امر ہے , اور اللہ تعالى نے اس کتاب عزيز کو سمجھنے اور نصيحت حاصل کرنے کےليے نہايت ہي آسان بنا ديا ہے

 "وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ [القمر : 17]"

اور ہم نے يقينا قرآن کو نصيحت کے ليے آسان کر دياہے تو کيا ہے کوئي نصيحت حاصل کرنيوالا ؟؟؟ ۔

ہميں چاہيے کہ ہم قرآن مجيد کے آداب , احکامات اور عزت وحرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسکے حقوق کو ادا کريں , اسکي تلاوت کريں جيسا کہ تلاوت کرنيکا حق ہے , اس پر ايمان لائيں جسطرح سے ايمان لانے کا حق ہے , اس کو سمجھيں جسطرح سمجھنے کا حق ہے , اس پر عمل پيرا ہوں , جسطرح عمل پيرا ہونيکاحق ہے , اور اسکي قدر کريں جسطرح قدر کرنے کا حق ہے ۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمين
سرنامہ